کیا حکومت پاکستان اپنے شہری کا پاسپورٹ بلاک کر سکتی ہے؟

حکومتی وزرا مختلف واقعات پیش آنے پر بیرون ملک پاکستانی شہریوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن کیا قانون اس کی اجازت دیتا ہے؟

تین نومبر، 2018 کو لی گئی اس تصویر میں بنکاک میں ایک شخص نے پاکستانی پاسپورٹ ہاتھ میں اٹھا رکھے ہیں (اے ایف پی)

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے گذشتہ دنوں لندن میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ساتھ ’بدتمیزی‘ کرنے والے پاکستانی شہریوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کی ہدایت دی ہے، لیکن کیا پاکستانی قانون کسی شہری کی سفری یا شناختی دستاویز کو بلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ 

لندن میں پیش آئے واقعے سے متعلق محسن نقوی نے میڈیا سے گفتگو میں مزید کہا تھا کہ اس میں ملوث افراد کی شہریت ختم کرنے کے لیے کابینہ سے منظوری بھی لی جائے گی۔

یہ پہلی بار نہیں جب کسی حکومت نے مختلف واقعات میں ملوث پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا اعلان کیا ہو۔

تین مہینے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا نام لیے بغیر بیرون ملک مقیم پارٹی کے حامیوں کے بارے میں کہا تھا کہ حکومت قانونی راستہ اپنا کر ان لوگوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کر دے گی۔ 

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ لوگ بیرون ملک بیٹھ کر غیر ملکی فنڈنگ سے پاکستان میں علیحدگی پسند تنظیموں اور ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ہم نے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد بھی لائیں گے جبکہ قانونی راستہ اختیار کر کے ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بلاک کریں گے۔‘

اسی طرح گذشتہ مہینے کالعدم تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر وفاقی حکومت کی پابندی لگنے کے بعد محسن نقوی نے کہا تھا کہ پی ٹی ایم کا ساتھ دینے والوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بلاک کیے جائیں گے کیونکہ یہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کے ان بیانات کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی ماہرین سے گفتگو کر کے اور کچھ پاکستانی قوانین کا مطالعہ کر کے جاننے کی کوشش کی کہ کس صورت میں ایک پاکستانی شہری کا شناختی کارڈ یا پاسورٹ بلاک ہو سکتا ہے۔

بیرسٹر گوہر علی درانی سپریم کورٹ کے وکیل اور آئینی معاملات کے ماہر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ کی شق نمبر تین کے مطابق اگر کوئی پاکستانی شہری ملک سے باہر کوئی جرم کرے تو ایسے شخص کے خلاف ملک کے اندر کارروائی ہو سکتی ہے۔

بیرسٹر گوہر کے مطابق زیادہ تر اسی شق کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے خلاف پاکستان میں مقدمے درج کیے جاتے ہیں۔

’تاہم اسے پاکستان میں ثابت کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے اور یہ صرف وقتی طور پر میڈیا کی زینت بنتا ہے لیکن ملزم پر جرم ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘

بیرسٹر گوہر علی نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے بلاک کرنے کے بارے میں بتایا کہ کسی پاکستانی شہری کے خلاف یک طرفہ فیصلہ کر کے سرکاری دستاویزات بلاک کرنا ’غیر آئینی اور غیر قانونی‘ ہے۔

’ریاست متعلقہ شخص کو سنے بغیر اس کا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بلاک نہیں کر سکتی، کیونکہ بطور شہری شناختی کارڈ یا پاسپورٹ اس کا بنیادی حق ہے۔‘

بیرسٹر گوہر کے مطابق جب سے آئین پاکستان میں شق نمبر 10 اے کو شامل کیا گیا ہے تو اس کے مطابق کسی بھی پاکستانی شہری کو سنے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ایک فیصلے میں یہ ذکر بھی کیا ہے کہ قانون کا تحفظ سب کو حاصل ہے۔

پاسپورٹ کس قانون کے تحت دیا جاتا ہے؟

پاکستان میں کسی بھی شہری بشمول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہریوں کو پاسپورٹ ایکٹ 1974 کے تحت ضروری فارم اور دیگر دستاویزات جمع کرنے کے بعد پاسپورٹ جاری کیا جاتا ہے۔

اسی قانون کے تحت پاسپورٹ جاری ہونے کے بعد کوئی بھی شہری اسی دستاویز پر بیرون ملک سفر کرنے کا مجاز ہے اور پاسپورٹ کے بغیر سفر کرنا قانونی طور پر جرم ہے، جس کی سزا ایک سال تک قید اور جرمانہ ہے۔

اس قانون کی شق نمبر سات کے مطابق کسی بھی اسے شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکتا ہے جس کے بارے میں حکومت کو لگے کہ اس شخص نے پاسپورٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔

اس قانون میں پاسپورٹ کے منسوخ کرنے یا ضبط کرنے کا ذکر ایکٹ کی شق نمبر آٹھ میں کیا گیا ہے، جس کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

اس قانون کے مطابق وفاقی حکومت یا سیکریٹری کسی بھی متعلقہ شخص کا پاسپورٹ منسوخ یا ضبط کرنے سے پہلے اس شخص کو تحریری طور پر اظہار وجوہ کا نوٹس دے کر آگاہ کرے گا اور اس سے پوچھے گا کہ اس کا پاسپورٹ منسوخ یا ضبط کیوں نہ کیا جائے؟

اسی شق کی تشریح بیرسٹر علی گوہر نے کرتے ہوئے کہا کہ بغیر نوٹس ریاست پاکستان کسی شخص کا شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بلاک نہیں کر سکتی۔

تاہم اسی پاسپورٹ ایکٹ کے مطابق اگر حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کسی کا پاسپورٹ منسوخ یا ضبط کرنا پڑے تو اس فیصلے کے دو ہفتوں کے اندر اندر متعلقہ شخص کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے گا۔

قانون کے مطابق، ’لیکن اگر حکومت کو لگے کہ کوئی شخص ریاست پاکستان کے مفاد کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث ہے یا اس شخص کی وجہ سے کسی دیگر ملک سے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہے تو اس صورت میں متعلقہ شخص کو نوٹس دینے کی ضرورت نہیں لیکن جس کا پاسپورٹ بلاک کیا گیا ہو، وہ ایک مہینے کے اندر متعلقہ ادارے میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔‘

کس صورت میں شہری کو پاسپورٹ دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے؟ 

پاکستان کے ہر شہری کو پاسپورٹ دینا اس کے بنیادی حقوق میں تو شامل ہے لیکن پاکستان میں قوانین کے مطابق بعض وجوہات کی بنا پر پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار بھی کیا جا سکتا ہے۔ 

پاکستان کے پاسپورٹ رولز 2021 کے مطابق کسی بھی شہری کو عدالتی احکامات کی وجہ سے پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کیا جا سکتا ہے، اور 18 سال سے کم عمر کے شخص کو سرپرست کی اجازت کے بغیر پاسپورٹ جاری نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح قانون کے مطابق جس شخص کا نام پروونشل نیشنل آئیڈینٹیٹی فکیشن لسٹ میں شامل ہو اور وہ کسی مقدمے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا ہوں تو اس کا بھی پاسپورٹ جاری نہیں ہو گا۔ 

اس کے علاوہ اگر کسی شخص کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ہے یا انٹرنیشنل کریمنل پولیس آرگنائزیشن (انٹرپول) کو مطلوب ہو تو اس کو بھی پاسپورٹ جاری نہیں ہو گا۔ 

اسی قانون میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر وفاقی حکومت کو لگے کو کوئی پاکستانی شہری بیرون ملک میں ’عوامی مفاد‘ یا پاکستان کی خود مختاری کے خلاف کام کرتا ہو تو ایسے شخص کو بھی پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔

2022 میں لاہور ہائی کورٹ میں چار درخواست گزاروں نے حکومت پاکستان کی جانب سے پاسپورٹ ’بلیک لسٹ‘ کرنے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ 

اس کیس کے فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ پاسپورٹ ایکٹ 1974 میں پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں اور اس قانون کے تحت وفاقی حکومت کو پاسپورٹ کینسل کرنے یا ضبط کرنے کا اختیار ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس مقدمے میں درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا: ’پاکستان اور بیرون ملک سفر کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس کے لیے پاسپورٹ لازمی شرط ہے اور یہ کوئی مراعات نہیں۔‘

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ یونیورسیل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے مطابق سفر کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور یہ بنیادی حقوق میں شامل ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق: ’کسی کا سفری حق اس صورت میں سلب کیا جا سکتا ہے، اگر کوئی شخص عوامی مفاد کے خلاف کسی جرم کا مرتکب ہو جائے اور یہ جرم ریزنیبل (قابل سزا) ہو۔‘

فیصلے میں پاسپورٹ اینڈ ویزا مینوئل 2006 کا پیرا 51 سٹرائیک ڈاؤن کر کے بتایا گیا تھا کہ پاسپورٹ ایکٹ، پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنے پر خاموش ہے اور درخواست گزار کا پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنا غیر قانونی ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

سپریم کورٹ کے وکیل اور انسانی حقوق کے مختلف مقدمات کی عدالتوں میں پیروی کرنے والے طارق افغان کے مطابق کوئی بھی ریاست اپنی جغرافیائی حدود کے اندر کسی ملزم کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے اور ریاستی قوانین بھی اسی جغرافیائی حدود کے اندر لاگو کیے جا سکتے ہیں۔ 

ان کے مطابق اگر کوئی شخص کسی شدت پسند تنظیم کی حمایت، پاکستان کو توڑنے یا سالمیت کے خلاف کام کرتا ہے تو ان کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا اخلاقی جواز تو بنتا ہے لیکن کسی احتجاج پر پاسپورٹ بلاک کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ 

انہوں نے بتایا: ’قاضی فائز عیسیٰ، جو کہ اب ایک عام پاکستانی شہری ہیں، ان کا کیس لیں تو وہ لندن میں متعلقہ ادارے کو درخواست جمع کروا سکتے ہیں اور وہاں کے قوانین کے تحت اس شخص کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔‘

پاسپورٹ ایکٹ میں ’عوامی مفاد‘ کی بنا پر پاسپورٹ ضبط یا کینسل کرنے کی بات کی گئی ہے، تاہم اب ’عوامی مفاد‘ کی تشریح کون کرے گا، اس حوالے سے قانون مبہم ہے۔ 

انہوں نے بتایا: ’ایک پارٹی کے رہنما کے خلاف اگر احتجاج ہوتا ہے تو دوسری پارٹی کے کارکنان احتجاج کرتے ہیں، تو اب اس صورت میں عوامی مفاد اور اسی بنا پر پاسپورٹ بلاک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان