حکومت پاکستان نے جمعرات کو ملکی حدود میں ایران کے مبینہ ڈرون حملے میں درجن بھر افراد کے مارے جانے کی خبروں کو مسترد کیا ہے۔
پاکستان کی ترجمان دفتر خارجہ نے آج معمول کی میڈیا بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اس خبر میں کوئی صداقت نہیں۔ ہم ایسے کسی بھی بیان کی تردید کرتے ہیں۔‘
اس سے قبل پاکستان کے جنوبی مغربی صوبے بلوچستان میں لیویز حکام کے مطابق پاکستان اور ایران کی سرحد پر پنجگور کے علاقے میں منگل کی شب مبینہ طور پر ایران کے ڈرون حملے میں 12 افراد جان سے گئے تھے جبکہ تین زخمی ہوئے۔
لیویز فورس کے مطابق یہ واقعہ نکر بازار نامی علاقے میں رخشاں ندی کے قریب پیش آیا۔
شدت پسند تنظیم جیش العدل نے بھی ایک بیان میں اپنے 12 جنگجوؤں کے مرنے اور چار کے زخمی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ حملہ پاکستان اور ایران کی فورسز نے مل کر کیا تھا تاہم پاکستان نے اس کلی تردید کی ہے۔
پنجگور میں لیویز فورس کے افسر عبدالغفار نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’منگل کی رات پاکستان کی جانب چار گاڑیوں میں سینکڑوں لوگ ایران کی طرف سفر کر رہے تھے کہ آدھی رات کو رخشاں ندی کے قریب سفر کے دوران ان پر ڈرون حملہ ہوا، جس میں کم سے کم 12 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ تین زخمی ہوئے۔‘
لیویز کنٹرول روم کے اہلکار داؤد خان کے مطابق: ’منگل کی رات اطلاع ملی کہ پنجگور شہر سے مغرب کی جانب کم و بیش 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ایران سرحد کے قریب نکر بازار نامی سنسان علاقے میں ڈرون حملہ ہوا اور 12 کے قریب افراد جان کی بازی ہار گئے اور دو گاڑیاں جل کر خاکستر ہوگئی ہیں۔‘
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے پاکستانی خبر رساں ادارے خراسان ڈائری کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان اور ایران کی سرحدی فورسز نے بلوچستان میں سمگلروں کے خلاف مشترکہ آپریشن کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ اطلاع ضلعی انتظامیہ کے افسران کو دی گئی۔ تاہم دور دراز اور پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے حکام نے رات کے وقت لیویز فورس کو موقعے پر جانے سے منع کر دیا۔‘
یہ جھڑپ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کے دو روزہ پہلے دورے پاکستان کے فوراً بعد ہوئی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے دورے کے دوران دونوں اطراف سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے علاوہ پاکستان و ایران کے دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کی۔
ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کا کہنا ہے کہ ایران کے نائب وزیر دفاع اور مسلح افواج لاجسٹکس کے نگران دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ بریگیڈیئر جنرل سید حجت اللہ قریشی اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کا پاکستان کی وزارت دفاع کے حکام نے استقبال کیا۔
پنجگور لیویز فورس کے ہیڈ محرر عبدالغفار کے مطابق بدھ کی صبح لیویز فورس کی ٹیم جائے وقوعہ پر روانہ ہوئی اور تین زخمیوں کو سول ہسپتال پنجگور منتقل کردیا گیا، جن کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’زخمیوں میں سے ایک نے اپنے پولیس بیان میں کہا کہ ہم لوگ مسافر ہیں اور چار فور بائے فور گاڑیوں مشتمل درجنوں افراد ایران جارہے تھے کہ راستے میں ہم پر اچانک حملہ ہوا۔ ایک زور دار دھماکے کے بعد آگ بھڑک اٹھی، تاہم ہمیں یہ انداز نہیں ہوا کہ یہ کس قسم کا حملہ تھا۔ ہم تینوں ہاتھ پاؤں مار کر زخمی حالت میں سڑک پر آگئے جہاں سے ایک لفٹ لے کر ہسپتال پہنچ گئے۔‘
عبدالغفار نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’جہاں پر حملہ ہوا ہے وہ ویران اور سنسان علاقہ ہے، وہاں نیٹ ورک اور مواصلاتی نظام نہیں اور دور دور تک آبادی کا نام نشان نہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’بدھ کی صبح پنجگور سے جائے وقوعہ کی طرف جانے والی لیویز فورس کی ٹیم تاحال واپس نہیں پہنچ سکی۔
’تاہم بڑی مشکل سے ایک لیویز اہلکار سے رابطہ ممکن ہوا ہے، جنہوں نے بتایا کہ ڈرون حملے میں جان سے جانے والے افراد کو جائے وقوعہ پر اجتماعی طور پر دفن کر دیا گیا کیوں کہ ان کی لاشیں شناخت کرنے اور اٹھانے سمیت مزید کارروائی کے قابل نہیں تھیں۔‘
بقول عبدالغفار: ’دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی زد میں آنے والے افراد موقعے پر جل گئے اور ان کی شناخت ممکن نہ سکی اور نہ ہی جان سے جانے والے افراد کی مکمل تعداد معلوم ہوسکی، تاہم اندازاً 12 افراد سے زائد اس واقعے میں جان سے گئے۔‘
زخمی عینی شاہدین نے بتایا کہ ’ایران جانے والے اس کاروان میں چار گاڑیوں پر سوار درجنوں افراد شامل تھے، جن کا تعلق الگ، الگ شہروں سے تھا، اس لیے ایک دوسرے کو شناخت بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی تمام لوگوں کی تعداد کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔‘