ایران میں حکام نے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف اپنی یونیورسٹی کے باہر زیر جامہ میں احتجاج کرنے والی طالبہ کو گرفتار کرلیا۔
ایران سے باہر مختلف نیوز ویب سائٹس اور سوشل میڈیا چینلز کی رپورٹس کے مطابق تہران کی اسلامی آزاد یونیورسٹی میں نیم فوجی ادارے ’بسیج‘ کے ارکان نے خاتون، جن کی شناخت نہیں ہوسکی ہے، کا سکارف اور کپڑے پھاڑ ڈالے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس واقعے کے بعد وہ احتجاجاً اپنے کپڑے اتار کر صرف زیر جامہ میں یونیورسٹی کے باہر بیٹھ گئیں، جس سے وہاں سے گزرنے والے افراد حیران رہ گئے اور ان کی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل ہو گئیں۔
ایران میں لاگو لباس کے قوانین یعنی ڈریس کوڈ کے تحت خواتین کو سر پر سکارف اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننے ضروری ہوتے ہیں۔
اس واقعے کی فوٹیج کو سب سے پہلے ایرانی طالب علموں کے سوشل میڈیا چینل امیر کبیر نیوز لیٹر نے پوسٹ کیا اور پھر اسے متعدد بین الاقوامی اداروں نے شائع کیا، جن میں ہینگاؤ رائٹس گروپ اور ایران وائر نیوز ویب سائٹ کے ساتھ ساتھ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی شامل تھی۔
فوٹیج دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک قریبی عمارت میں لوگوں نے ان کی ویڈیو بنائی۔ ایک اور ویڈیو میں دیکھا گیا کہ انہیں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام پر لے جا رہے ہیں۔
امیر کبیر نیوز لیٹر نے الزام عائد کیا تھا کہ گرفتاری کے دوران خاتون پر تشدد کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا: ’ایرانی حکام کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹی کی طالبہ کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرے، جسے سکیورٹی اہلکاروں کے ناروا سلوک کے خلاف احتجاج میں اپنے کپڑے اتارنے کے بعد گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘
لندن میں قائم انسانی حقوق کے گروپ نے مزید کہا: ’طالبہ کی رہائی تک، حکام کو انہیں تشدد اور دیگر ناروا سلوک سے بچانا چاہیے اور ان کے خاندان اور وکیل تک رسائی کو یقینی بنانا چاہیے۔‘
گروپ نے مزید کہا کہ ’گرفتاری کے دوران خاتون کے خلاف مار پیٹ اور جنسی تشدد کے الزامات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘
ایران کی فارس نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ میں واقعے کی تصدیق کی ہے، جس میں طالبہ کی تصویر کو دھندلا کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبہ نے کلاس میں ’نامناسب لباس‘ پہن رکھا تھا، جس پر سکیورٹی گارڈز نے انہیں ڈریس کوڈ کی تعمیل کے لیے خبردار کیا جس کے بعد وہ بے لباس ہو کر سڑک کنارے بیٹھ گئیں۔‘
عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ سکیورٹی گارڈز نے طالبہ کے ساتھ آرام سے بات کی تھی اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں جھوٹی ہیں۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق اسلامی آزاد یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل عامر مہجوب نے اتوار کو ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ ’شمالی تہران میں واقع اسلامی آزاد یونیورسٹی کی سائنس اور ریسرچ برانچ کی ایک طالبہ کی طرف سے غیر اخلاقی حرکت کے بعد کیمپس کے سکیورٹی اہلکاروں نے اقدامات کیے اور خاتون کو قانون نافذ کرنے والے حکام کے حوالے کر دیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیکل ٹیسٹس سے ظاہر ہوا ہے کہ طالبہ ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔
عامر مہجوب نے میڈیا کی ان رپورٹس کو مسترد کر دیا کہ کیمپس سکیورٹی نے ان کے کپڑے پھاڑے تھے۔
انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ اس واقعے کی فوٹیج کو مزید شیئر کرنے سے گریز کریں۔