جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں دنیا بھر میں فضائی آلودگی جانچنے والی ویب سائٹ اے کیو آئی کے مطابق دنیا کے فضائی آلودگی کے بدترین شہروں میں لاہور کا نمبر 24واں ہے جبکہ شکر گڑھ 28 ویں نمبر پر ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد اپنی جان گنواتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد کم اور متوسط آمدن کے افراد کی ہے، جو اس آلودگی کا زیادہ سامنا کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی 10 اموات میں سے ایک کی وجہ آلودگی ہے۔ پاکستان میں ہر سال سوا لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کے باعث اپنی جان کھو دیتے ہیں۔
انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ای پی آئی سی) شکاگو کے تازہ ترین ایئر کوالٹی لائف انڈیکس (اے کیو ایل آئی) میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی پنجاب میں متوقع عمر میں تقریباً چار سال کی کمی کرتی ہے۔
سوئٹزر لینڈ کے ماحولیات پر کام کرنے والے تھنک ٹینک آئی کیو ایئر کے مطابق لاہور کی ہوا میں آلودگی ’خطرناک‘ ہے۔ کھانوں کے لیے پاکستان کا دارالحکومت کہلانے والا شہر لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے اور یہ اعزاز اس وقت لاہور کو ملا جب ابھی سموگ کا آغاز بھی نہیں ہوا۔
برطانوی طبی جرنل لینسٹ کے مطابق پاکستان میں 22 فیصد اموات آلودگی کے باعث ہوتی ہیں اور ان میں سے اکثریت کی وجہ فضائی آلودگی ہے۔ کم آمدنی والے لوگ، جیسے کہ مزدور وغیرہ، فضائی آلودگی کی زد میں زیادہ آتے ہیں کیونکہ وہ سارا سارا دن کھلی فضا میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔
ایک طرف روزگار کمانے کے لیے فضائی آلودگی میں کام کرنا اور دوسری جانب طبی سہولیات تک آسانی سے رسائی نہیں ہوتی۔ یعنی صرف وہ جن کو طبی سہولیات تک رسائی ہے اور وہ اس کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں وہی فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے بچ پاتے ہیں۔
صوبہ پنجاب عمومی طور پر اور خاص طور پر لاہور اس سال بھی سموگ کی لپیٹ میں ہے اور لاہور میں جس سے بھی بات کرو تو اس کا یہی کہنا ہے کہ سموگ کی صورت حال اتنی خراب ہے کہ سانس لینا مشکل ہے لیکن پھر بھی ’لاہور لاہور اے‘۔
لاہور گذشتہ چند روز سے مسلسل دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرِفہرست ہے یا پھر پہلے تین شہروں میں شمار ہو رہا ہے۔ سموگ کی صورت حال اتنی خراب ہے کہ گذشتہ چند روز میں شہر میں فضائی آلودگی یا سموگ کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی اور پہلی بار 700 اے کیو آئی سے تجاوز کر گئی۔
حکومت پنجاب نے اے کیو آئی کو نیچے لانے اور لوگوں کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے لاہور کے دس علاقوں میں گرین لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے تحت گرین لاک ڈاؤن کے علاقوں میں ’چنگ چی‘ رکشوں اور بھاری ٹریفک کے داخلے پر پابندی، سرکاری اور نجی اداروں کی بڑی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی پارکنگز کو ان علاقوں سے نکالا جائے گا، جب کہ دفاتر میں ’ورک فرام ہوم‘ یعنی گھر سے کام کے اصول جیسے اقدامات شامل ہوں گے۔
پنجاب حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاہور اور پنجاب کے چند دوسرے شہروں میں کم از کم 30 فیصد حصہ اس سموگ پر مشتمل ہے، جو انڈیا کے پنجاب کی طرف سے ہواؤں کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو رہی ہے، جو ایک سالانہ رجحان ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب کی وزیر اعلٰی مریم نواز نے کہا ہے کہ سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وہ انڈیا کے ساتھ ’کلائمٹ ڈپلومیسی‘ یعنی ماحولیاتی سفارت کاری چاہتی ہیں اور اس سلسلے میں وہ انڈین پنجاب میں اپنے ہم منصب یعنی وزیر اعلٰی کو خط لکھنے کا بھی سوچ رہی ہیں۔
لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے کہ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہر سموگ کی لپیٹ میں ہیں۔
2021 سے ہر سال یہی معمول رہا ہے اور نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں سکولوں کو بند کیا جاتا رہا ہے اور گذشتہ برس متحدہ عرب امارات کے اشتراک سے ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ یعنی مصنوعی بارش بھی کی گئی تھی تاکہ سموگ کو کم کیا جا سکے۔
ہر سال پنجاب کے شہروں میں سموگ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ذکر ہوتا ہے لیکن اس حوالے سے ٹھوس اور سسٹین ایبل اقدامات یا تو دیکھے نہیں یا پھر بہت کم اٹھائے جاتی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بھی سموگ نے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیے ہیں۔
اس وقت اسلام آباد فضائی آلودگی کے حوالے سے ملک کا تیسرا آلودہ ترین شہر ہے جہاں آلودگی عالمی اداراہ صحت کی تجویز کردہ حد سے چار گنا سے بھی زیادہ ہے۔
اسلام آباد میں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت صرف یہ کہہ کر چھوڑ دیتی ہے کہ دارالحکومت میں تو بارش ہو جائے گی اور سموگ پر قابو پا لیا جائے گا اس لیے کسی قسم کے اقدامات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سموگ بھی موسمی تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ سموگ میں موجود میتھین اور کالی کاربن موسمی تبدیلی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ میتھین اور کالی کاربن جیسے اجزا کاربن ڈائی آکسائیڈ سے زیادہ موسمی تبدیلی کا زیادہ باعث بنتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔