صحرا میں ادب

شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر میں شرکت کے بعد ایک گہرا تاثر قائم ہوا اور وہ یہ کہ یہ صدی کتابوں سے عشق کی آخری صدی نہیں ہے۔

متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل ترمذی (درمیان میں) شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر میں اردو کتابوں کے سٹال کا افتتاح کر رہے ہیں (آمنہ مفتی)

متحدہ عرب امارات، دولت، روشنی، کاروبار، شاپنگ مالز اور درہموں کی دنیا ہے، جہاں ابوظبی کے تیل کی دولت اور دبئی کے کاروبار کی دمک کے علاوہ کم ہی کچھ سجھائی دیتا ہے۔ 

اس دنیا میں علم اور کتاب کی روشنی کہیں تھی یا نہیں اس پہ ہم نے عمومی طور پہ نہ کچھ خاص سنا نہ کچھ دیکھا۔ چنانچہ عرب امارات کا تصور ہمیشہ پیسے کی ہنڈی اور علی بابا چالیس چور کی غار کا سا رہا، جہاں سے فقط درہم و دینار کی تھیلیاں اٹھا کے دوڑا جا سکتا ہے۔ 

اس برس جب شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر کا بلاوا آیا تو راقم کی بانچھیں چر گئیں۔

خوابوں میں درہم و دینار و ریال کی تھیلیاں چھنکنے لگیں اور خدام اشیائے خورد و نوش لیے سنگ مرمر کی راہداریوں سے سایوں کی طرح گزرنے لگے۔ عود و عنبر کے جھونکے مشام جاں کو معطر کرنے لگے۔ 

اس الف لیلوی خواب میں سوتے جاگتے شارجہ پہنچی۔ شارجہ پہنچ کے ممکن نہیں کہ آپ کو جاوید میانداد اور ان کا چھکا نہ یاد آئے۔ ہمیں بھی یاد آیا اور اس کے ساتھ جانے کیا کیا یاد آگیا۔ وہ یاد بھی الف لیلی سے کیا کم تھی۔ 

خیر سے ہوٹل پہنچے اور کتاب میلے کی افتتاحی تقریب میں پہنچے۔ یا حیرت، جو خیالات آنے سے پہلے ہذیان کی صورت دماغ میں چکرا رہے تھے، یہاں مجسم صورت میں سامنے تھے۔ ایکسپو سنٹر خوشبو سے طبلہ عطار بنا ہوا تھا اور سفید لباس میں خدام قہوے کے فنجان لیے ادھر سے ادھر دوڑتے پھر رہے تھے۔ 

ذرا دیر میں سلطان بن محمد القاسمی تشریف لائے اور عربی کی لغت کا افتتاح کیا، جس پہ مختلف عرب ممالک کے 700 سکالرز نے کام کیا تھا۔

ہر ملک سے اس کام میں شریک ہونے والے سکالرز کے نمائندے نے سلطان سے سند وصول کی اور تقریب کے اختتام سے پہلے سلطان نے عربی انسائیکلوپیڈیا کے منصوبے کا اعلان کیا۔ 

میں سٹیج سے قریب ہی بیٹھی تھی اور آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی کہ علم و ادب کے قدر دان صرف فردوسی کے دور تک محدود نہیں تھے۔ وہ تمام حکمران جن کے دل میں علم کی قدر ہے اور وہ کتاب کی عظمت کو سمجھتے ہیں اور آج بھی اس راستے میں موتی لٹانے کو تیار ہیں۔ 

اگلے روز مجھے ایک سکول میں بچیوں کو کہانی لکھنے کی ورکشاپ دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔ پرنسپل صاحبہ کلکتہ کی تھیں اور لکھنؤ کے ازابیلا تھوبرن کالج ان کی مادر علمی تھی۔ ان کی ساڑھی کی نفاست میں کلکتہ اور لکھنؤ دونوں چھلک رہے تھے۔ 

ڈیڑھ گھنٹے کی ورکشاپ میں میں اور مختلف قومیتوں کی بچیاں پکے دوست بن چکے تھے۔ ہم نے مل کے بڑی بہنوں کی چغلیاں کیں، سنو وہائٹ کی کہانی کو نئے سرے سے لکھا اور پرنس چارمنگ کے بارے میں اپنے مشترکہ شکوک کا اظہار کیا۔ 

بچیوں کی محبت، ان کے سوالات میرے لیے میری تصویروں اور تحریروں سے کٹنگ لے کر بنائے گئے ہوسٹرز شاید میرے ادبی کیرئیر کے اہم ترین انعام تھا۔ ان کی ایک استانی کے مطابق ان کے پاس 65 مختلف قومیتوں کی بچیاں پڑھ رہی ہیں۔

امارات کی آبادی کی شکل ایسی ہی ہے اور اس آبادی میں میں اردو میں لکھنے والی ادیب، ذرا بھی اجنبی محسوس نہیں کر رہی تھی۔ ہمارے درمیان کہانی کا رشتہ ہے اور یہ رشتہ اتنا گہرا ہے کہ زبان کا فرق بھی اسے متاثر نہیں کر سکتا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کتاب میلے پہ آنے والے لوگ بھی مختلف قومیتوں کے ہیں۔ غالبا 83 سے بھی زیادہ ادیب جو دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھتے ہیں ایک چھت کے نیچے جمع تھے۔ 

امارات کی تہذیب اور خاص کر شارجہ کی تہذیب آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہی ہے۔  تیل کی دولت کے ساتھ ساتھ علم کی دولت کی طرف بھی قدم بڑھ رہے ہیں۔ کتاب پڑھنے کا ذوق بڑھ رہا ہے۔ 

کتاب میلے سے نکلیں تو ٹیکسی چلانے والے، ہوٹل کے بیرے، دکان پہ سودا سلف بیچنے والے، سب کے سب پاکستانی ہیں۔ پاکستانی نہیں بھی ہیں تو اردو بول اور سمجھ لیتے ہیں۔ اردو زبان کی ادیب ہونے پہ اگر دل کے کسی کونے میں کبھی خسارے کا کوئی احساس تھا بھی تو اب نہیں رہا۔ 

کتاب سے محبت آہستہ آہستہ بڑھے گی، کہانی کا طلسم کہاں آزاد رہنے دیتا ہے؟ میلے کے تیسرے روز عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل ترمذی صاحب پاکستان بک ورلڈ کے سٹال پہ تشریف لائے۔

سرمد خان صاحب جو اس محبت کے سودے میں سب کچھ لٹانے کو تیار ہیں پاکستان کے معدودے چند سٹالز میں سے ادبی کتابوں کے واحد سٹال پہ آخری قلعہ دار کی طرح جم کے کھڑے تھے۔ خوشی ہوئی کہ ہماری کتابیں سمندر پار پہنچیں ہیں اور بک رہی ہیں۔ 

درہم و دینار کی تھیلیاں تو نہ ملیں مگر اتنا اندازہ ہو گیا کہ عرب امارات میں اور خصوصاً شارجہ میں علم و ادب کا جو نخلستان آباد ہو رہا ہے یہاں سے علم کے چشمے پھوٹیں گے اور ہمارے وہ بھائی بند جو کچھ برس پہلے تک یہاں صرف محنت مزدوری کرتے تھے اور بوجوہ علم سے دور تھے جلد ہی کتاب پڑھنے والی ایک قوم بن کے ابھریں گے۔ 

ممکن ہے یہ ایک فوری تاثر ہو مگر بڑی بات یہی ہے کہ فوری ہی سہی مگر ایک گہرا تاثر قائم ہوا اور وہ تاثر یہ ہی ہے کہ یہ صدی کتابوں سے عشق کی آخری صدی نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر