شمالی کوریا اور روس کا حملے کی صورت میں مشترکہ دفاع کا معاہدہ

یہ معاہدہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پیانگ یانگ نے یوکرین سے لڑنے میں ماسکو کی مدد کے لیے اپنے ہزاروں فوجی روس بھیجے ہیں۔

19 جون 2024 کو پیانگ یانگ میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن روس کے صدر ولادی میر پوتن کو میڈل پیش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

شمالی کوریا نے روس کے ساتھ تاریخی دفاعی معاہدے کی توثیق کر دی ہے جس کے تحت سکیورٹی تعاون کو مزید فروغ دیتے ہوئے پیانگ یانگ اور ماسکو کسی بھی فریق پر حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا دفاع کریں گے۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ معاہدہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پیانگ یانگ نے یوکرین سے لڑنے میں ماسکو کی مدد کے لیے اپنے ہزاروں فوجی روس بھیجے ہیں۔

اس معاہدے کے ذریعے سرد جنگ میں کمیونسٹ اتحادی رہنے والی دونوں قوموں کے درمیان فوجی تعلقات کو باقاعدہ بنایا گیا ہے۔

پیانگ یانگ کے روایتی حریف سیئول اور واشنگٹن نے جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا پر الزام لگایا ہے کہ اس نے اپنے ہزاروں فوجی روس بھیجے ہیں جہاں وہ روسی وردیوں میں ملبوس کرسک کے قریب یوکرین کی سرحد پر جمع ہیں۔

پیانگ یانگ کے سرکاری خبر رساں ادارے کورین سنٹرل نیوز ایجنسی (کے سی این اے) نے منگل کو بتایا کہ ملک کے مطلق العنان رہنما کم جونگ اُن نے ایک حکم نامے کے ذریعے کریملن سے معاہدے کی توثیق کر دی۔

اس سے قبل روسی پارلیمان نے گذشتہ ہفتے اس معاہدے کی توثیق کے لیے متفقہ طور پر ووٹ دیا تھا جس پر صدر ولادی میر پوتن نے بعد میں دستخط کیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کے سی این اے کی رپورٹ کے مطابق ’یہ معاہدہ اس دن سے نافذ العمل ہو گا جب دونوں فریقوں نے توثیق کی دستاویز کا تبادلہ کیا۔‘

اس معاہدے کے بعد شمالی کوریا یوکرین میں روسی جنگ کا سب سے زیادہ مؤثر اور اہم حمایتی بن گیا ہے۔

پیانگ یانگ پر طویل عرصے سے مغربی ممالک کی طرف سے ماسکو پر یوکرین میں استعمال کے لیے توپ خانے کے گولے اور میزائل فراہم کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے لیکن حالیہ ہفتوں میں شمالی کوریا کے ہزاروں فوجیوں کی لڑائی میں حصہ لینے کی اطلاعات کے بعد اس حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

پوتن اور کم جونگ اُن نے جون میں روسی صدر کے شمالی کوریا کے دورے کے دوران سٹرٹیجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

یہ دونوں ریاستوں کو ایک دوسرے پر حملے کی صورت میں کسی تاخیر کے بغیر فوجی مدد فراہم کرنے اور مغربی پابندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے باہمی تعاون کا پابند بناتا ہے۔

پوتن نے جون میں ہونے والے اس معاہدے کو ایک ’اہم پیش رفت‘ قرار دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا