پاکستان میں قومی ڈیٹا بیس کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ادارے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے سربراہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا ہے کہ ان کے ادارے سے 27 لاکھ پاکستانیوں کی معلومات چوری کرنے والوں کی نشاندہی کے بعد انہیں سزائیں دی جا چکی ہیں۔
تاہم رکن کمیٹی آغا رفیع اللہ نے کمیٹی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ڈیٹا لیک کرنے والوں کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔
قائمہ کمیٹی کے منگل کو اجلاس کے بعد چیئرمین راجہ خرم نواز نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ’کابینہ نے اس معاملے پر جے آئی ٹی بنائی تھی جس نے ملوث افراد کی نشاندہی کی ہے اور انہیں سزائیں بھی دے دی گئیں۔‘
انہوں نے کہا کہ چئیرمین نادرا لیفٹینیٹ جنرل محمد منیر افسر نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’27 لاکھ پاکستانیوں کا نادرا سے ریکارڈ چوری کیا گیا تھا۔‘
چئیرمین کمیٹی کے مطابق ذمہ داران کے خلاف کارروائی کر دی گئی ہے۔
تاہم رکن کمیٹی آغا رفیع اللہ نے صحافیوں کے سامنے ذمہ داران کے خلاف تاحال کارروائی نہ کیے جانے کا انکشاف کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’27 لاکھ لوگوں کا ڈیٹا چوری ہونے کا مسئلہ نہیں تھا، اصل میں کچھ اہم لوگوں کا ڈیٹا لیک ہونے پر تکلیف ہوئی تھی۔ ڈیٹا لیک کرنے والے آج بھی نادرا کا اہم حصہ ہیں۔ ڈیٹا لیک کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ ڈیٹا لیک کرنے والے مزید اچھی پوسٹوں پر تعینات ہیں۔‘
نادرا دفاتر
اجلاس کے آغاز میں چیئرمین نادرا نے کمیٹی کو ان کے ادارے میں تعیناتیوں اور ریونیو کے معاملات پر بریفنگ دی۔
انہوں نے بتایا کہ ’نادرا کے دفاتر کو بڑھایا نہیں جا سکتا۔ ایسا کرنے سے شناختی کارڈ کی فیس بڑھانا ہو گی۔ 61 تحصلیں ایسی ہیں جہاں نادرا کے دفاتر نہیں ہیں۔ یہ ایسی تحصلیں ہیں جہاں حکومت نے اعلان تو کر دیا لیکن ان کی حلقہ بندی نہیں کی گئی۔ نادرا کا اپنا فنڈ ہے ہم نے فیس تبدیل نہیں کی۔ ہم نے کارڈز کو ری نیو نہیں کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیئرمین نادرا نے مزید کہا کہ ’جب تک پرانا کارڈ چل رہا ہے فرد نیا کارڈ نہیں بنواتا۔ لوگ شناختی کارڈ نہیں بںواتے تو ہمارا فنڈ بھی جنریٹ نہیں ہوتا۔
’27 تحصلیں ہیں جہاں نادرا دفاتر نہیں ہیں۔ زیادہ تحصیلیں کے پی کے اور بلوچستان میں ہیں، جہاں ہمارے دفاتر نہیں۔ پنجاب میں مری اور تلہ گنگ ڈسٹرکٹس بنیں لیکن ان کی حلقہ بندیاں ہمارے پاس نہیں پہنچیں۔‘
زرتاج گل وزیر نے سوالات کیے کہ ’نگران حکومتوں نے نادرا میں تعیناتیاں کیسے کیں؟ افسران کو نادرا سے نکالے جانے کی سکیورٹی وجوہات تھیں؟ افسران کی کونسی ڈگریوں کے ایشوز تھے؟ 53 ارب روپے آپ کا ریکارڈ ریونیو تھا۔ ہمارے ایریاز میں نادرا وینز بھیجی جائیں۔ 53 ارب ریونیو میں سے اخراجات کیا ہیں ہمیں بتایا جائے۔‘
چیئرمین نادرا نے جواب دیا کہ ’وفاقی حکومت کا چیئرمین اور بورڈ کی تعیناتی کے علاوہ کوئی عمل دخل نہیں۔ نادرا کی تمام تعیناتیاں نادرا حکام کرتے ہیں۔ نادرا کے اندر کئی ایسی تعیناتیاں ہوئیں جو ایڈورٹائز نہیں ہوئیں۔ بہت سے افسران نے اپنی ڈگریاں بعد میں مکمل کیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارا بجٹ 57 ارب ہے، جس میں سے 87 فیصد تنخواہوں میں جاتا ہے۔ طادرا کے پاس 240 کے قریب وینز ہیں۔ آپ کو جب بھی نادرا وینز چاہیے آپ ہیڈکوارٹرز رابطہ کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نادرا مزید 90 وینز خریدنے جا رہی ہے۔ 75 وینز پر سیٹلائٹ کنیکٹیویٹی کی سہولت موجود ہو گی۔کوئٹہ اور خیبرپختونخواہ میں 35 وینز پر سیٹلائٹ کنیکٹویٹی ہے۔‘
جعلی شناختی کارڈز
افغانوں کے جعلی شناختی کارڈز کا معاملہ بھی کمیٹی میں زیر بحث آیا، جب ن لیگ کے رکن اسمبلی طارق فضل چوہدری نے چیئرمین نادرا سے سوال کیا کہ ’افغانوں کے کارڈز کیسے بنے جن کی تعداد بہت زیادہ ہے؟‘
چیئرمین نادرا نے جواباً کہا کہ افغانوں کے کارڈز بنے یہ بحث بہت لمبی ہو جائے گی، ہر روز 40 لوگوں کی نشان دہی کرتے ہیں، جو غلط اندراج کرتے ہیں۔‘
ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) احمد اسحاق جہانگیر نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’ارکان اسمبلی نثار احمد جٹ اور صاحبزادہ حامد رضا کا نام پی آئی این ایل سے نکال دیا گیا ہے۔‘
سعودی عرب میں بھکاری
سعودی عرب میں پاکستانی بھکاریوں کے معاملے پر انہوں نے بتایا کہ ’گزشتہ تین سال میں 4000 بھکاری سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہوئے۔ ہم نے 400 لوگوں کو ایئر پورٹ سے آف لوڈ کیا۔ بھکاریوں کو بیرون ملک بھجوانے میں منظم گینگ ملوث ہیں۔‘