ارشد چائے والا کی واپسی: کیا مشہور ہونے کا کوئی فارمولا ہے؟

بظاہر انتہائی مشکل ہے۔ مگر انسان مشہور کیوں ہونا چاہتا ہے؟ شہرت ایک دلکش تصور ہے، ایک ایسی حیثیت جو آپ کو باقی لوگوں سے نمایاں کر دے۔

ارشد چائے والا کی چائے بناتے ہوئے اپنی پرانی تصویر کے ساتھ 5 اپریل 2024 کو لی گئی ایک تصویر (چائے والا انسٹا گرام)

آپ کے پاس دنیا جہان کی دولت ہے، ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن شہرت کی دیوی کانی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتی۔ آپ چائے بناتے ہیں تو نظر کرم ہو جاتی ہے۔ یہ کیا ہے بھئی؟ کیا مشہور ہونے کا بھی کوئی فارمولا ہے؟

2016 میں انسٹاگرام پر وائرل ہونے والی ایک تصویر نے معمولی چائے فروش کو سٹار بنا دیا۔ کچھ دن میڈیا کی شہرت اور پھر ایک لمبی چپ۔

کل سے پھر ارشد کی باسی چائے میں نیا ابال آیا ہے۔

انہوں نے حال ہی میں معروف بزنس ریئلٹی شو ’شارک ٹینک پاکستان‘ میں شرکت کی اور اپنے آئیڈیے کی بدولت ایک کروڑ کا معاہدہ کر لیا۔

اگر ارشد یہ ایک کروڑ انسٹاگرام میں جھونک دے تو کیا وہ وہ پہلی شہرت کا دسواں حصہ بھی حاصل کر سکتا ہے؟

بظاہر انتہائی مشکل ہے۔ مگر انسان مشہور کیوں ہونا چاہتا ہے؟

شہرت ایک دلکش تصور ہے، ایک ایسی حیثیت جو آپ کو باقی لوگوں سے نمایاں کر دے۔

چاہے جانا اور نوٹس ہونا ہمارے خون میں گردش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ دوسروں کو بتانا کہ ہم یہ تک بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے آج کہاں سے کافی لی اور بس کی کس کلاس میں سفر کیا۔

یہ سب طاقت اور غلبے کی خواہش کا اظہار ہے جس نے انسان کے ارتقائی سفر میں کلیدی کردار ادا کیا۔

شہرت کی خواہش اس میں پیوست ہے، یہ ایک ہی جال کے مختلف ریشے ہیں جن سے بطور انسان ہمارا وجود بُنا گیا۔

قدیم زمانے سے لے کر ڈیجیٹل دور تک غلبے کی بنیادی نفسیات ایک ہی رہی: دوسروں سے زیادہ خود کو بہتر تولیدی عمل کا حامل ثابت کرنا۔

قبائلی نظام میں آپ کا مقابلہ محض ارد گرد کے افراد سے تھا، یہ دائرہ وسیع ہوتے ہوتے سوشل میڈیا کی صورت پھیل چکا ہے۔ اب مگرمچھ تالاب کے بجائے سمندر کو اپنی شکار گاہ سمجھتے ہیں۔

ایک جدید تحقیق کے مطابق ہر دن شہرت کا مسلسل خواب دیکھنے والے نوجوانوں کی تعداد تقریباً 40 فیصد ہے۔ باقی ہمت ہار چکے ہیں یا کبھی کبھار ایسی چنگاری اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔

آپ نے گوریلوں کو لڑتے دیکھا ہو گا، وہ سینے پر ہاتھ مارتے اور مخالفین کو بھگاتے ہیں۔ وہ بھی غلبہ چاہتے ہیں تاکہ خود کو سب سے زیادہ توانا ثابت کریں اور زیادہ بچے پیدا کرنے کے بہتر مواقع حاصل کریں۔ انسان غلبہ ثابت کرنے کے لیے لڑائی کرتا ہے یا شہرت و عظمت کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔

شہرت سماجی برتری کے بلند مینار پر ہی فائز نہیں کرتی بلکہ یہ سماجی تعلقات کا دائرہ بھی وسیع کرتی ہے۔ آپ کا جال جس قدر وسیع ہو گا مچھلیاں بھی اتنی زیادہ پھنسیں گیں۔

شہر اقتدار میں ایک امیر زادہ ہے۔ وہ آج کل فہد مصطفی بننا چاہتا ہے۔ گاڑیاں ہیں، لش پش اور آسائش کے تمام اسباب مہیا ہیں، ای سیون میں گھر ہے لیکن سر پہ بھوت سوار ہے کہ مشہور ہونا ہے۔ کسی طرح شہرت ملے۔ کیسے ملے؟ یہ فارمولا اسے ہاتھ نہیں آ رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چند روز پہلے وہ کہہ رہا تھا کہ یہ قوم عجیب ہے۔ کبھی چائے والے کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تو کبھی ’میرا دل یہ پکارے‘ والی ’معمولی رقاصہ‘ کو نورا فتحیی مان لیا۔

وہ سخت خفا تھا کہ گاؤں دیہاتوں سے معمولی بھیڑ بکریاں چرانے والے مجھ سے زیادہ سوشل میڈیا فالونگ رکھتے ہیں۔ کوئی اسے بتائے شہرت خریدی نہیں جا سکتی، ہاں کچھ انفرادیت ہے اور اسے مارکیٹ کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ۔

اب تو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم ہے جہاں مساوی نہ سہی کافی مواقع ضرور ہیں۔

شوبز کے لوگ سب سے زیادہ مشہور ہوتے ہیں کیونکہ وہ براہ راست ہمارے خوابوں کو سکرین پر پیش کرتے ہیں۔

ہم جیسے خواب دیکھتے ہیں وہ آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ مگر شوبز ایک بے رحم دنیا ہے۔ فہد مصطفی ایک دن میں نہیں بنا، دہائیوں کی محنت ہے اور مسلسل کام۔

لیکن شہرت کے بعد ایک منزل الگ تھلگ زندگی گزارنے کی خواہش یا مجبوری ہے۔

ساحر لدھیانوی کی زندگی دیکھیں۔ بالی وڈ میں کسی شاعر کو سٹار جیسی طاقت حاصل ہوئی تو وہ ساحر تھے۔

حمید اختر 1979 میں بمبئ گئے تو انہیں کیفی وغیرہ نے منع کیا کہ ساحر کے گھر نہ جانا۔ حمید اختر نے ساحر کے ساتھ بچپن اور لڑکپن کی بیشمار دن گزارے تھے، وہ یادیں تازہ کرنے ساحر کے گھر جا پہنچے۔

ساحر نے سب کچھ کمایا لیکن شہرت اور دولت ان کے من کے زخم مندمل نہ کر سکی۔

حمید اختر ساحر کے خاکے میں لکھتے ہیں کہ وہ گھر سے باہر نکلتے تھے نہ کسی سے ملتے تھے۔

ساحر لدھیانوی جیسا شاعر، بانکا اور ہمالیہ جیسی انا رکھنے والا ساحر بالکل ٹوٹ چکا تھا۔ وہ رات کو اپنے کمرے سے اٹھ کر کچن کے سامنے حال میں آ کر سو جاتا کہ رات کو ہارٹ اٹیک آئے تو کسی کو آواز تو دے سکے۔

بالی وڈ میں راجیش کھنہ سے زیادہ شہرت کسی کو نہیں ملی۔ سلیم خان ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں، ’میرا بیٹا سلمان خان بڑا سٹار ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے روزانہ ہمارے گھر کے سامنے ہجوم جمع ہوتا ہے۔ لوگ اکثر میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے کسی سٹار کا ایسا کریز نہیں دیکھا۔

’میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر کارٹر روڈ پر ’آشیرواد‘ کے سامنے میں نے ایسے کئی نظارے دیکھے ہیں۔ اور میں نے راجیش کھنہ کے بعد کسی دوسرے ستارے کے لیے اس طرح کی پذیرائی نہیں دیکھی۔

’راجیش کھنہ کے چاہنے والوں میں چھ سال کے بچے بھی شامل تھے اور 60 سال کے بزرگ بھی۔ لڑکیاں ان کے بارے میں پُرجوش تھیں۔‘

آخری عمر میں وہ جوہو کے کنارے اپنے پسندیدہ کیفے پر جاتے اور اکیلے بیٹھ کر برگر کھاتے۔ لپ سٹک سے لتھڑی گاڑی اور خون سے لکھے خط ماضی کی سنہری یاد تھی جو دل میں کانٹے کی طرح چبھتی تھی۔ زندگی واقعی ہمیں خوش کرنے کے لیے نہیں بنی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ