جسٹس قاضی اب ریٹائر ہو گئے ہیں چھوڑ دیں ان کی جان: جسٹس مسرت ہلالی

سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے پہلے دن آج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے 18 مقدمات سنے جن میں سے 15 غیر موثر ہونے کی وجہ سے خارج کر دیے گئے۔

جسٹس امین الدین خان سات رکنی آئینی بینچ کے پہلے سربراہ مقرر دیگر ارکان میں جسٹس محمد علی مظہر کے علاوہ جسٹس نعیم افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں (سپریم کورٹ ویب سائٹ)

آئینی بینچ میں شامل جسٹس مسرت ہلالی نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کو چیلنج کرنے کی درخواست کرنے پر ریمارکس دیے کہ ’کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، جسٹس قاضی اب ریٹائر ہو گئے ہیں چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان۔‘ اس کے بعد آئینی بینچ نے درخواست گزار وکیل ریاض حنیف کی نظرثانی درخواست خارج کر دی۔

سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کے پہلے دن آج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے 18 مقدمات سنے جن میں سے 15 غیر موثر ہونے کی وجہ سے خارج کر دیے گئے۔

بے بنیاد مقدمہ بازی پر درخواست گزاروں کو مجموعی طور پر 60 ہزار روپے کے جرمانے عائد کیے گئے جبکہ تین مقدمات آئینی بینچ نے ملتوی کر دیے۔ 

26ویں آئینی ترمیم کے بعد آئینی بیچ نے جمعرات کے روز کیسز کی سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان کے ساتھ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک آج بینچ کا حصہ نہیں تھیں۔

ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات پر تمام صوبوں سے رپورٹ طلب

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 1993 سے جاری ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اب تک اٹھائے گئے تمام اقدامات پر صوبوں سے رپورٹ طلب کر لی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’پنجاب اور اسلام آباد میں دیکھیں کیا حالت ہوگئی ہے۔‘ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’موجودہ حالات میں اس کیس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔‘

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ’یہ مقدمہ 1993 سے چل رہا ہے، لاہور شہر ایک سائیڈ سے واہگہ بارڈر دوسری جانب سے شیخوپورہ تک پھیل گیا ہے، زرعی زمینوں پر ڈی ایچ اے اور دیگر سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں، جو علاقے زلزلے کی زد میں نہیں آتے وہاں ہائی رائز عمارتیں بنائی جائیں، آنے والی نسلوں کےساتھ ہم کیا سلوک کر رہے ہیں، فلیٹ کلچر کو فروغ دیں، لازمی نہیں کہ چھ چھ کنال کے بنگلے بنائے جائیں۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’اسلام آباد کی ماحولیاتی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تو سب اچھا ہے، سال 2021 کی رپورٹ کے مطابق تمام سٹیل ملز ایس او پیز پر عمل کر رہی ہیں، کیا 1993 سے آج تک سپریم کورٹ نے ہی یہ کیس سننا ہے؟ عدالت رپورٹ مانگتی رہے گی تو ہی ادارے کام کریں گے؟ ماحولیاتی تبدیلی اتھارٹی کا چیئرمین کیوں تعینات نہیں ہوسکا؟ چیئرمین تعینات ہوگا تو ہی اتھارٹی فعال ہو گی۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’پٹرول میں ہونے والی ملاوٹ سے آلودگی پھیل رہی ہے اس پر بھی توجہ دیں، ملک کو لگنے والی بیماریوں میں آلودگی بھی شامل ہے، بیماری کی وجہ جاننے اور علاج دونوں کی ضرورت ہے۔‘ 

جسٹس امین الدین خان  نے کہا کہ ’صرف کاغذی کارروائی سے کام نہیں چلے گا، عملی اقدامات کریں، آئندہ سماعت پر تفصیلی رپورٹس آ جائیں تو مقدمہ نمٹا دیں گے۔‘ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کیس

قاضی فائز عیسی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے چیلنج کی تھی۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ آئینی بینچ نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر نظرثانی درخواست خارج کر دی۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’یہ نظرثانی درخواست ہے، ایسی درخواست پر بینچ کے سربراہ سے درخواست کروں گا کہ معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیجیں، کیس کو دوبارہ نہیں کھول سکتے۔ کیا آپ کیس دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں؟‘

درخواست گزار وکیل ریاض حنیف نے عدالت سے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے بھٹوکیس بھی 40 سال بعد سنا۔ میں عدالت کو حقائق بیان کر رہا ہوں، میرے پاس ریکارڈ نہیں لیکن بلوچستان سے ریکارڈ منگوایا جاسکتا ہے۔ قاضی فائز عیسی کی تقرری میں اس وقت وزیر اعلیٰ کی مشاورت شامل نہیں تھی۔‘

جسٹس امین الدین نے درخواست گزار کی جانب سے غیر ضروری باتیں کرنے پر کہا کہ ’عدالت آپ سے جو سوالات پوچھ رہی آپ ان کے جواب کیوں نہیں دے رہے؟ قانون بتائیں کہ وزیراعلیٰ کے ساتھ مشاورت کیسے ضروری ہے؟‘ جسٹس محمدعلی مظہر نے اس موقع پر درخواست گزار سے کہا کہ ’آپ غصے میں کیوں آ رہے ہیں؟ عدالت کی بات سنیں۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، جسٹس قاضی اب ریٹائر ہو گئے ہیں چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان۔‘ اس کے بعد آئینی بینچ نے درخواست گزار وکیل ریاض حنیف کی نظرثانی درخواست خارج کر دی۔

تین درخواستیں 60 ہزار جرمانے کے ساتھ خارج

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے غیر ملکی اثاثوں اور بنک اکاؤنٹس کے خلاف درخواست 20 ہزار جرمانے کے ساتھ خارج کر دی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ الیکشن کمیشن غیر ملکی اکاؤنٹس اثاثوں پر قانون سازی کیسے کر سکتا ہے۔‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’درخواست گزار نے درخواست میں کوئی قانونی بات نہیں کی۔‘

درخواست گزار مشتاق اعوان نے عدالت سے کہا کہ ’میرا موقف ہے کہ غیر ملکی اثاثوں یا بنک اکاؤنٹس پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘ جسٹس محمد علی مظہر نے جواباً کہا کہ ’اس معاملے پر قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ کن لوگوں کے غیر ملکی اثاثے یا بنک اکاؤنٹس ہیں کسی کا نام نہیں لکھا۔‘

جسٹس امین الدین خان نے درخوست خارج کرتے ہوئے کہا کہ ’معاملہ پر قانون سازی کے لیے درخواست گزار اپنے حلقے کے منتخب نمائندے سے رجوع کرے۔‘

غیر ملکی خواتین سے پاکستانیوں کی شادیوں پر پابندی کی درخواست بھی خارج کی گئی جب کہ عدالت نے درخواست گزار پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسی درخواستوں کو اجازت دی تو یہ درخواست بھی آجائے گی کہ شادیوں سے روکا جائے۔‘

پی ڈی ایم دور حکومت میں قانون سازی کے خلاف درخواست بھی آئینی بینچ نے 20 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کر دی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’60 ہزار مقدمات ایسے ہی مقدمات کے سبب زیر التوا ہیں۔‘

آئینی بنچ نے عام انتخابات 2024 ری شیڈول کرنے کی درخواست خارج کر دی

آئینی بینچ نے عام انتخابات ری شیڈول کرنے کی درخواست غیر موثر ہونے پر خارج کر دی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ ’اب تو انتخابات ہوچکے ہیں یہ درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔‘ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’وکیل نہیں آئے ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان