کراچی سے آنے والا ایک پاکستانی مال بردار بحری جہاز بنگلہ دیش کی جنوب مشرقی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا جو 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد دونوں ممالک کے درمیان پہلی بار براہ راست سمندری رابطہ ہے۔
بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن نے بتایا کہ کراچی سے پہنچنے والا بحری جہاز بدھ کو بنگلہ دیش کی چٹاگانگ بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔
اس جہاز کا لنگر انداز ہونا روایتی طور پر پاکستان بنگلہ دیش کے پیچیدہ سفارتی تعلقات میں ایک تاریخی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے جو انڈین نواز شیخ حسینہ انتظامیہ کی برطرفی کے بعد محمد یونس کی قیادت میں نئی عبوری حکومت کے تحت تعلقات میں گرمجوشی کا اشارہ بھی ہے۔
بنگلہ دیش، جو پہلے مشرقی پاکستان کے نام سے جانا جاتا تھا، 1971 میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے ساتھ ’جنگ‘ کے بعد ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا۔
بڑے پیمانے پر مبینہ ’مظالم‘ سے لبریز نو ماہ کے تنازع نے گہرے نشانات چھوڑے اور ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان طویل عرصے تک تعلقات کو متاثر کیا، ڈھاکہ میں بہت سے لوگ پاکستان کو بڑے پیمانے پر مظالم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
گذشتہ برسوں کے دوران بنگلہ دیش نے نئی دہلی کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے کیوں کہ انڈیا وہ ملک تھا جس نے ’تحریک آزادی‘ کی حمایت میں مداخلت کی جس کے نتیجے میں انڈیا کی افواج نے پاکستان کو شکست دی اور 16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش نے باضابطہ طور پر آزادی حاصل کر لی جو اب جنوب مشرقی ایشیا میں تاریخی جیو پولیٹکل تبدیلی کا نشان ہے۔
شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن، جنہیں بنگلہ دیش میں اکثر ’بابائے قوم‘ کہا جاتا ہے، نئے قائم ہونے والے ملک کے پہلے وزیر اعظم بنے۔
لیکن دہائیوں بعد پاکستانی بحری جہاز کی آمد کو بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن نے دو طرفہ تجارت میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
ہائی کمیشن کے بیان کے مطابق: ’یہ نیا راستہ سپلائی چین کو ہموار کرے گا، ٹرانزٹ ٹائم کو کم کرے گا اور دونوں ممالک کے لیے کاروبار کے نئے مواقع کھولے گا۔‘
پاکستانی ہائی کمشنر سید احمد معروف نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پہلا بار براہ راست سمندری رابطہ براہ راست تجارت کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مزید براہ راست شپنگ ٹرانسپورٹ شروع کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ نظام دونوں ممالک کے معاشی اور سماجی تعلقات کو آگے بڑھانے میں مدد کرے گا۔‘
شیخ حسینہ کو ملک میں ان کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر طلبہ کی بغاوت کے بعد معزول کر دیا گیا تھا۔ کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے خونی احتجاج کے بعد انہیں اس وقت استعفیٰ دے کر ہیلی کاپٹر پر انڈیا فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا جب مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بول دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیخ حسینہ کی بے دخلی کے بعد ان کے والد مجیب الرحمان کے پورٹریٹ اور مجسموں سمیت 1971 کی جنگ کی علامتوں کو مظاہرین نے تباہ کر دیا۔ مجیب الرحمان کو حسینہ کی والدہ اور تین بھائیوں کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا لیکن شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد سے اسلام آباد اور ڈھاکہ دونوں نے قریبی تعلقات قائم کرنے اور تعلقات کو معمول پر لانے پر زور دیا ہے۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ملاقات کی اور دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعاون کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے تعلقات میں نئے باب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے محمد یونس نے اس موقع پر کہا تھا کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلقات کو بحال کریں۔‘
یہ شیخ حسینہ کی انتظامیہ کی پالیسیوں کے برعکس اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ انڈیا کے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘کے مطابق اگست 2022 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستانی بحریہ کے چینی ساختہ جنگی جہاز پی این ایس تیمور کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
کمبوڈیا اور ملائیشیا کی بحریہ کے ساتھ مشقوں کے بعد اپنے پہلے سفر پر پاکستان کی یہ فریگیٹ بالآخر سری لنکا کی ایک بندرگاہ پر لنگر انداز ہوئی۔
سری لنکا نے پی این ایس تیمور کو کولمبو میں رکنے کی اجازت دی جب وہ 15 اگست کو یہاں پاکستان نیوی میں شامل ہونے جا رہے تھی اور جب بنگلہ دیش کی حکومت نے اسے چٹوگرام پورٹ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔
ملک کو معاشی عروج تک پہنچانے والے شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت میں بنگلہ دیش کے انڈیا کے ساتھ قریبی تعلقات رہے جب کہ دونوں ممالک نے کاروبار، توانائی اور دفاع کے شعبوں میں بھی تعاون کیا۔ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جن کی دو طرفہ تجارت تقریباً 16 ارب ڈالر ہے۔
© The Independent