ایک وقت تھا کہ پاکستان میں سردیوں کی آمد پر چھائی دھند بڑی ڈرامائی لگتی تھی۔ دھندلے دھندلے پس منظر میں دوست یار بیٹھے ہوتے تھے، ہاتھ میں چائے یا چکن کارن سوپ، جسم کشمیری شال میں لپٹا ہوا، آگے چند لکڑیوں کی آگ جل رہی ہوتی تھی جس سے ہاتھ تاپے جاتے تھے۔ اب ایسی سموگ ہے کہ پت جھڑ کے موسم کا رومانوی منظر دیکھ کر کھانسی کا پھندا لگ جاتا ہے۔
امریکہ کے خلائی تحقیق کے ادارے ناسا نے خلا سے تصویر بھیجی ہے کہ لاہور والو، تم یہاں سے دھواں دھواں نظر آرہے ہو، وہاں زمین پر دیکھنے کو کیا ہوگا!
ہم تو اسی دھند سے واقف تھے، جو ذرا سی دھوپ نکلنے پر غائب ہو جایا کرتی تھی لیکن سموگ سرد موسم میں فضا میں پھنسی وہ آلودگی ہے، جو ہوا کے دوش پر بجائے یہاں وہاں پھیل جانے کے زمین کے اوپر ہی اٹکی اور لٹکی رہتی ہے۔
خیر سے ہمارے یہاں فضائی آلودگی بلا تخصیص موسم سارا سال پائی جاتی ہے لیکن موسم سرما کے آغاز پر جیسے ہی درجہ حرارت ذرا نیچے آتا ہے، وہ آلودگی کسی کُہرے کی چادر کی طرح عین ہمارے اوپر تن جاتی ہے۔ پھر نہ سانس لی جاتی ہے، نہ آنکھوں کی نمی میں کمی آتی ہے، پھیپھڑے تازہ ہوا کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور گلے کی خرخراہٹ طبیعت کو الگ بوجھل کر دیتی ہے۔ اخیر ہوجائے تو یہ سموگ ہارٹ اٹیک، فالج یا دمے کی انتہائی علامات تک پہنچ جاتی ہے۔
یوں تو اور بھی کئی انڈیکس ہیں، جن میں ہمارا نام سرفہرست رہتا ہے لیکن فضائی آلودگی کے عالمی انڈیکس میں ہم نے دیگر ملکوں کو خاصا پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان دنوں ہوا کے معیار کا انڈیکس لاہور اور مضافات میں ایسی ریکارڈ توڑ قسم کی آلودہ فضا ریکارڈ کر رہا ہے کہ ہم بین الاقوامی خبرناموں کی زینت بن رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہوا کے معیار کا انڈیکس کہتا ہے کہ تین سو سے اوپر آنے والی ریڈنگ خطرے کی گھنٹی ہے لیکن لاہور میں گذشتہ کئی روز سے لی جانے والی ریڈنگز ہزار کا ہندسہ چھو چکی ہیں۔
ہمارے ماحول میں ہوا کا خطرناک ترین حد تک گرا ہوا معیار ہمارے اپنے کرتوتوں کا رپورٹ کارڈ ہے۔ خیر منائیں کہ پاکستان میں پینے کے پانی کا معیار عمومی طور پر چانچنے کا کوئی سلسلہ نہیں ورنہ اکثر دریاؤں اور ندی نالوں کو بلکہ جگہ جگہ کھلے فلٹر پلانٹس کے پانیوں کو بھی ناقابل استعمال قرار دیا جا چکا ہوتا۔
فی الحال تو ہمارے سامنے سب کچھ دھندلا ہے اور ہیڈ لائنز بن رہی ہیں کہ پاکستان کو اپنے ہی پھیلائے زہر سے خطرہ ہے۔ چلیں دنیا کا کیا ہے؟ بھاڑ میں جائے دنیا، جو یونہی خواہ مخواہ کی ہولاتی رہتی ہے لیکن سموگ میں سانس لینے کی جنگ واشنگٹن میں بیٹھا نیوز کاسٹر نہیں لاہور کا شہری لڑ رہا ہے۔
پنجاب کا صوبہ پاکستان میں کاشت کاری کا مرکز ہے۔ ہم شہروں میں رہنے والوں کو یہ بات ذرا مشکل سے سمجھ آئے گی لیکن فصل اتار لینے کے بعد اس کی باقیات کو آگ لگانا ایک عمومی پریکٹس ہے۔ ہم ان فصلوں سے اُگتے گندم اور چاول بھی مزے سے کھاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فصلوں سے اٹھتے آگ کے دھوئیں کو بھی پھونکتے ہیں۔
زرعی سیکٹر میں ماحول دوست قواعد بھی ناموجود ہی ہیں۔ معمولی پکڑ دھکڑ کر لی جاتی ہے لیکن اب تک ملک کی زرعی پالیسی میں اس مدعے پر کوئی واضح ایکشن نہیں۔
یہی حال مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا ہے جہاں فیکٹریاں اور کارخانے ایندھن سے بننے والا دھواں چھوڑتے ہیں اور دور دور تک ماحولیات کے قوانین کا کوئی اتا پتا نہیں۔ اَن گنت گاڑیاں بغیر کسی فٹنس کے دھنا دھن چل رہی ہیں، ٹریکٹرز اور ٹرک سمیت بسوں کا ٹریفک الگ ہے۔ پاکستان کی ٹریفک پولیسنگ میں آلودگی کنٹرول شاید ہی کسی کی فوقیت ہوتی ہو۔
پھر آ جائیں سرخ اینٹوں کے بھٹوں کی جانب، جہاں چمنیاں رات دن کسی چین سموکر کی طرح دھواں پھونکتی ہیں۔ اینٹوں کے بھٹے مقامی انڈسٹری کی ایک شکل ہے، جس کے مالک کو دھونس دھمکی سے قابو کرنا آسان ہے لیکن اینٹوں کے بھٹے کا بہتر اور پریکٹیکل متبادل کیا ہو اس کا بھی کوئی اتا پتا نہیں۔ بلڈنگ انڈسٹری جو کنسٹرکشن کے کام سے وابستہ ہے، اس جانب تو کوئی دیکھتا ہی نہیں کہ وہ کس قدر فضائی آلودگی کا باعث بن رہی ہے، نہ کوئی ریگولیشن نہ کوئی قانون۔
اب یہ سموگ ایسا مسئلہ تو ہے نہیں کہ ایک بار ہوگیا تو اگلی بار نہیں ہوگا۔ ایسا بھی نہیں کہ سکول کالج، دفتر ، بازار اور پارک بند کر دینے سے سموگ کا دل ٹوٹ جائے اور وہ اگلے برس سردیوں میں یہاں نہ آئے۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ جیسے ہی سموگ پھیلے ویسے ہی حکومت سموگ ایمرجنسی لگا دے اور سموگ نوٹی فیکیشن دیکھ کر بھاگ نکلے۔
سموگ ہمارا پانچواں موسم بن چکا ہے، یا تو ہتھیار ڈال دیں اور اس موسم کے بھی پکوان سوچنے شروع کر دیں یا پھر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر کسیں اور یہ تب تک نہیں ٹلے گا جب تک کہ ہمارے فیصلہ ساز سرے سے غیر موجود فضائی آلودگی قوانین اور ماحولیاتی پالیسی کو سنجیدہ نہیں لیں گے۔
سرحد پر فائر بندی تو ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن پاکستان سے انڈیا یا انڈیا سے پاکستان آنے والی سموگ صرف مشترکہ ایکشن سے ہی جائے گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔