پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اتوار کو ملک میں مہنگائی کی شرح 38 سے سات فیصد اور شرح سود 22 سے 15 فیصد پر آنے کی خبر دیتے ہوئے بتایا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (ائی ایم ایف) کے ساتھ پورا معاشی روڈ میپ شیئر کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر جو دو ہفتے کی درآمدات کا احاطہ کرتے تھے، اب وہ ڈھائی مہینے کی امپورٹ کوور پر آ چکے ہیں اور اسے ہم سٹیٹ بینک کے تعاون سے تین مہینے کے امپورٹ کوور پر لے جا رہے ہیں۔‘
وزیر خزانہ کے مطابق (آئی ایم ایف) اور دیگر مالیاتی اداروں نے حال ہی میں پاکستان کی معاشی پیش رفت کی تعریف کی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم پاکستان عنقریب ایک ایجنڈا قوم کے سامنے رکھیں گے کہ ’معاشی روڈ میپ کو کیسے آگے لے کر جانا ہے اور وہ کیا ہے۔‘
آئی ایم ایف کے پروگرام کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پاکستان کا اپنا پروگرام ہے، جسے آئی ایم ایف کی مدد، معاونت اور فنڈنگ حاصل ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے آئی ایم ایف کا جو مشن پاکستان آیا تھا اس میں ’ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، ایس او ای اصلاحات، نجکاری کا ایجنڈا اور پبلک فنانس جیسے موضوعات پر بحث ہوئی تھی۔‘
بقول وزیر خزانہ: ’پبلک فننانس کے شعبے میں پوری وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کرنی ہے اور اس حوالے سے پورا روڈ میپ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے کہ اسے کیسے آگے لے کر جا رہے ہیں۔‘
محمد اورنگزیب نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کے تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ایک حکومت کے طور پر کام کرنا ہے، یہ بات نہیں ہے کہ وفاق کیا کر رہا ہے اور کون سا صوبہ کیا کر رہا ہے۔ ہمیں اسی روڈ میپ کو آگے لے کر جانا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت چلتی رہتی ہے اور جاری ہے۔ اس میں کچھ ورچوئل ملاقاتیں ہوتی لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہر ممکن طور پر دو بدو ملاقاتیں ہوں۔
’گذشتہ ہفتے آئی ایم ایف کے ساتھ جو بات چیت ہوئی ہے وہ مثبت رہی ہے۔۔۔ جہاں تک ریونیو اور ٹیکس کے معاملات ہیں اس میں ہم اب تعمیل اور نفاذ میں انتہائی سختی برتیں گے کیوں کہ ایک ملک ہونے کے ناطے ہم مجبور ہیں اور ہم دوبارہ پرانی حالت میں واپس جانا نہیں چاہتے۔‘
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ چاہے وہ تنخواہ دار طبقہ ہو یا پھر مینوفیکچرنگ سیکٹر، تمام شعبوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
’ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے چاہے وہ ریئل سٹیٹ کا شعبہ ہو یا پھر ہول سیل کے دوست ہوں یا پھر زراعت ہو اور یہ درخواست نہیں ہے، یہ ہمیں ہر صورت کرنا ہے۔‘
وزیر خزانہ نے آبادی میں اضافے اور ماحولیاتی آلودگی کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے ہم اسے سنبھال نہیں سکتے کیوں کہ جو بچے پیدا ہو رہے ہیں وہ سٹنٹنگ کا شکار ہیں، ان کی نشونما نہیں ہو رہی۔ اس کے علاوہ وہ لرننگ سٹنٹنگ کا شکار ہیں یعنی انہیں تعلیم کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’کلائمیٹ ریزیلیئنسی اور آبادی کو بھی ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہے اور ان پر بھی اتنی ہی توجہ دینی ہے جتنی آئی ایم ایف سے بات چیت پر دیتے ہیں۔‘