حکومت کے پاکستان کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بدھ کو ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس میں پاکستان کے سات ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی حتمی منظوری دے دی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی جانب سے سات ارب ڈالرز کی منظوری پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’معاشی اصلاحات کا نفاذ تیزی سے جاری ہے۔‘
بیان کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ خوش آئند اور معاشی ٹیم کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘
وزیر اعظم نے اس موقع پر آئی ایم ایف پیکیج کے حوالے معاونت فراہم کرنے والے دوست ممالک سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالرز کے قرض کے حصول کے لیے سٹاف لیول معاہدہ جولائی 2024 میں طے پایا تھا جسے ایگزیکٹیو بورڈ کی جانب سے باقاعدہ منظور کیا جانا باقی تھا۔
اس سے قبل پاکستان کے گورنر سٹیٹ بینک نے بدھ ہی کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد 1.1 ارب ڈالرز کی پہلی قسط ملنے کا امکان ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے بتایا تھا کہ ’پروگرام کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف سے پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط ملنے کا امکان ہے۔‘
گورنر سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ رواں مالی سال مہنگائی 11.5 فیصد اور معاشی ترقیاتی کی شرح 2.5 سے 3.5 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صفر سے ایک فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔
’ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے مہنگائی 15 فیصد اور معاشی شرح نمو 2.8 فیصد رہنے کا تخمینہ دیا ہے‘ اس سوال پر گورنر نے جواب دیا کہ ’ہم مانیٹری پالیسی میں لگائے گئے تخمینے پر قائم ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اجلاس میں کیا ہوا؟
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس میں اراکین پارلیمنٹ کے الاؤنسز میں ترمیم پر غور کیا گیا۔
اس ترمیم کے مطابق اراکین پارلیمنٹ کے الاؤنسز طے کرنے کا اختیار حکومت کے بجائے قومی اسمبلی کے پاس ہو گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا ’قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ قومی اسمبلی کرے گی، اس کا قانون پاس ہو چکا ہے۔ اب اراکین سینیٹ کی تنخواہیں بڑھانے کا اختیار سینیٹ کو دینے کی ترمیم ہے۔‘
اجلاس کے دوران ’اراکین پارلیمنٹ کی اپنی تنخواہوں میں اضافہ اپنی مرضی سے کرنے‘کی ترمیم پیش کر دی گئی۔ بعد ازاں سیکرٹری خزانہ امداد بوسال نے ترمیم پر غور کے لیے تین دن کا وقت مانگ لیا۔
اجلاس میں سٹیٹ بینک کے حکام نے اسلامی بینکاری پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ سینیٹر انوشہ نے اس دوران سوال کیا ’اسلامی بینکاری میں کبھی نقصان صارف کو دیا جاتا ہے؟‘جس پر حکام نے جواب دیا کہ ’اگر اسلامی بینک کو نقصان ہو تو وہ مسابقت کے باعث اپنا منافع کم کر کے صارف کو بچاتے ہیں۔‘
چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا اسلامی بینکوں کے بارے میں شکایت ہے کہ یہ کمرشل بینکوں کے مقابلے میں چار فیصد کم منافع ادا کر رہے ہیں۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا اسلامی سکوک کا حجم بہت بڑھ گیا ہے، ’ہماری حکومت نے اسے فروغ دیا۔ کیا اسلامی بینکوں کے لیے قرض جاری کرنے کی کوئی حد نہیں ہے؟‘
گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان میں سکوک بانڈ بہت مقبول ہے، حکومت کے تمام سکوک کسی جائیداد کے بنیاد پر جاری کیے گئے۔ ’ہم سکوک کے لیے اثاثہ کی شرط میں تبدیلی سے متعلق شریعہ سکالرز سے مشاورت کر رہے ہیں۔ اسلامی بینکاری کو عالمی معیارات کے مطابق چلایا جاتا ہے۔‘
چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ ’کیا اسلامی بینکاری عام بینکاری کی طرح محتاط قوانین پر عملدرآمد کرتی ہے؟‘ گورنر نے کہا ’سٹیٹ بینک کے محتاط قوانین کافی سخت ہیں۔‘
اس کے بعد سٹیٹ بینک کے حکام نے بتایا ’کمرشل بینک صارف سے زیادہ چارج کرتے ہیں، ان بینکوں کے پاس حکومت کے چار ہزار ارب کے قرض ہیں جبکہ اسلامی بینکوں کے پاس سرمایہ کاری کے کم مواقع ہیں۔‘
انکم ٹیکس گوشواروں سے 50 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع
دوسری جانب اجلاس کے بعد ممبر انکم ٹیکس پالیسی حامد عتیق نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یکم اکتوبر سے منی بجٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ’جولائی سے ستمبر تک 2600 سے 2700 ارب کا ٹیکس جمع کریں گے، ایف بی آر ٹیکس کا شارٹ فال پورا کرے گا۔‘
ممبر انکم ٹیکس پالیسی نے کہا ’گیس کمپنیوں سے سیلز ٹیکس کی مد میں بقایا جات ملیں گے۔ کارپوریٹ سیکٹر سے ایڈوانس انکم ٹیکس 30 ستمبر سے پہلے ملے گا جبکہ بینکوں سے ایڈوانس انکم ٹیکس کی رقم 30 ستمبر سے پہلے ملے گی نیز انکم ٹیکس گوشواروں سے 50 ارب روپے حاصل ہونے کی توقع ہے۔‘