بشریٰ بی بی کی موجودگی خیبر پختونخوا حکومت پر اثر انداز ہو گی؟

تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی پشاور میں موجودگی کے دوران فوری طور پر سیاست میں حصہ نہیں لیں گی لیکن وہ خیبر پختونخوا حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ضمانت پر رہائی کے بعد بنی گالہ اور وہاں سے جمعرات کو پشاور منتقل ہو گئی ہیں اور خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق وہ کچھ عرصہ پشاور میں رہیں گی۔

بشریٰ بی بی مختلف مقدمات میں جیل میں تقریباً نو مہینے رہیں اور گذشتہ روز ان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ بنی گالہ لے جایا گیا۔ 

تاہم اچانک خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ وہ پشاور کے لیے روانہ ہوگئی ہیں جس کی بعد میں تصدیق ہو گئی۔

بشریٰ بی بی بظاہر تو پی ٹی آئی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہیں اور نہ وہ کیمرے پر آتی ہیں اور نہ ابھی تک پارٹی کی جانب سے کبھی ایسا کیا گیا ہے کہ انہوں نے کسی اجلاس کی قیادت کی ہو۔ 

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کی سیاست اور پارٹی کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

بشریٰ بی بی کی پی ٹی آئی کے زیر حکومت پشاور میں موجودگی اور اس کے اثرات کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کاروں سے بات کی کہ مستقبل میں کیا ممکنہ حالات دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔

طارق واحد پشاور میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار ہیں اور پی ٹی آئی کی سیاست پر گہری نظر سے رکھتے ہیں۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ماضی میں بشریٰ بی بی تو بظاہر سامنے نہیں آئی ہیں لیکن پچھلے دور میں پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تعیناتی میں ان کا بڑا کردار تھا۔‘

طارق وحید کے مطابق عثمان بزدار پر پارٹی کے اندر اختلافات بھی موجود تھے لیکن بعد میں کچھ آڈیو لیکس میں یہ پتہ چلا تھا کہ عثمان بزدار کے ساتھ بشریٰ بی بی کھڑی تھیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح طارق وحید نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈاپور کی تعیناتی میں بھی بشریٰ بی بی کی رائے شامل تھی۔

طارق وحید نے کا کہنا تھا کہ ’یہ بالکل صاف بات ہے کہ بشریٰ بی بی کا پی ٹی آئی کے فیصلوں میں عمل دخل موجود ہے اور عمران خان بھی بشریٰ بی بی کی سنتے ہیں۔‘

اب سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت جہاں علی امین گنڈاپور اقتدار میں ہیں یہاں بشریٰ بی بی کا کیا کردار ہوگا؟ تو اس پر طارق وحید نے بتایا کہ علی امین کے لیے یہ نیک شگون نہیں ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’بشریٰ بی بی عمران خان کے قریب ہیں اور اب ان کا فیصلہ عمران کا فیصلہ سمجھا جائے گا تو اسی صورت میں علی امین اب خود فیصلے یا کوئی پالیسی نہیں بنا سکیں گے۔‘

تاہم دوسرے جانب طارق وحید کے مطابق بشریٰ بی بی کے قریب سمجھے جانے والی اور خیبر پختونخوا کی مشیر مشال یوسفزئی کے مطابق بشریٰ بی بی کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں شریک نہیں ہوں گی۔

طارق وحید کے مطابق اگر بشریٰ بی بی یہاں زیادہ عرصے کے لیے رہیں گی تو صوبائی حکومت کے فیصلوں میں ضرور ان کا عمل دخل ہوگا۔ 

بشریٰ بی بی عمران خان کی اہلیہ تو ہیں لیکن اب ان کا پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں تو کیا ان کے عمل دخل پر پارٹی قیادت میں اختلافات تو پیدا نہیں ہو سکتے، اس سوال کے جواب میں طارق وحید نت نے بتایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’یہ بات تو اب واضح ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی، پھر مرکزی پی ٹی آئی اور صوبوں کی قیادت کے مابین اختلافات موجود ہیں لیکن ہو سکتا ہے بشریٰ بی بی کی وجہ سے یہ اختلافات قدرے کم ہوجائیں۔‘ 

طارق وحید کے مطابق، ’عمران خان کے بعد پی ٹی آئی میں قیادت کا بحران پیدا ہوگیا ہے اور اب بشریٰ بی بی ہی ہیں جن کا فیصلہ عمران خان کا فیصلہ سمجھا جائے گا تو ہو سکتا ہے اس سے قیادت کے مابین اختلافات ختم ہوجائیں۔‘

طارق وحید تو بشریٰ بی بی کی پشاور میں موجودگی نیک شگون نہیں سمجھتے، تاہم صحافی و تجزیہ کار لحاظ علی کے مطابق ان کی موجودگی علی امین کی ’جیت‘ ہے اور علی امین کو بشریٰ بی بی کی موجودگی سے فائدہ ہو گا۔ 

لحاظ علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کی پہلی وجہ یہ کہ علی امین اب کوئی بھی فیصلہ کریں گے تو اس کو بشریٰ بی بی کی وجہ سے تقویت ملے گی اور اس پر ایک مہر سمجھی جائے گی۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’دوسری وجہ علی امین کی جیت اس لیے ہو گی کہ اب پنجاب کی قیادت علی امین کے فیصلوں پر تنقید نہیں کر سکے گی جس طرح پہلے کیا جاتا تھا اور اسلام آباد مارچ میں ہم نے یہ دیکھ لیا تھا۔‘ 

لحاظ علی کے مطابق، ’خیبر پختونخوا میں عاطف خان سمیت ان کے جو حامی ہیں اور ان کے صوبائی حکومت کی قیادت سے اختلافات ہیں تو اب بشریٰ بی بی کی وجہ سے علی امین کی قیادت پر تنقید نہیں کر سکیں گے۔‘

اسی طرح لحاظ علی کے مطابق علی امین کو اب عمران خان تک رسائی میں پہلے سے زیادہ آسانی حاصل ہو گی اور وہ عمران خان سے مل سکیں گے۔ 

اسلام آباد کے حالیہ مارچ میں علی امین تنقید کی ذد میں تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ان کو ڈی چوک میں کارکنان کو نہیں چھوڑنا چاہیے تھا لیکن لحاظ علی کے مطابق اب اس قسم کے مظاہروں کے فیصلے علی امین ہی کریں گے کیونکہ ان کو بشریٰ بی بی کی حمایت حاصل ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست