کیا پاکستان کی پالیسیاں ڈیجیٹل سفارت کاری میں مددگار ہیں؟

ہماری قیادت کے بارے میں کیا تاثر پیدا ہوتا ہے، جو ایکس پر پابندی عائد کر کے اسے استعمال کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں کو مبارک باد دینے اور خوش آمدید کہنے میں مصروف رہتی ہے؟

30 اکتوبر 2023 کی اس تصویر میں مشرقی فرانس کے مول ہاؤس میں ایک سمارٹ فون پر ایکس (سابق ٹویٹر) کا لوگو دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

پاکستان اپنے ڈیجیٹل سفر کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے آئی ٹی ماہرین کو مہارت اور کردار کے حوالے سے سراہا جاتا تھا لیکن اب ہمارے پیشہ ور افراد کو بین الاقوامی شراکت داروں کی طرف سے بڑھتے ہوئے انتباہات اور لاتعلقی کا سامنا ہے۔

ہر حکومت نے عالمی ڈیجیٹل معیشت میں پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے بلند و بانگ اہداف پیش کیے، لیکن حالیہ پالیسی فیصلے ان خوابوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پابندی، انٹرنیٹ میں سست روی، انٹرنیٹ کی مکمل بندش، اور اب ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس(وی پی این) پر پابندی نے خاصی تشویش پیدا کی ہے۔

ایسے وقت میں جب پاکستان کو ڈیجیٹل شمولیت اور اختراع کو فروغ دینا چاہیے، یہ پالیسیاں ترقی اور بہتری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔

گذشتہ چند سال میں ہمارے ملک کے ڈیجیٹل شعبے نے نمایاں ترقی کی۔ پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2018 میں ایک ارب ڈالر سے بڑھ کر 2023 میں 2.6 ارب ڈالر ہو گئیں، جو اس شعبے کی معیشت کو فروغ دینے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم، انٹرنیٹ سروسز میں بار بار خلل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندیوں نے اس ترقی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق، 24 گھنٹے کی انٹرنیٹ بندش معیشت کو 1.3 ارب روپے (روزانہ جی ڈی پی کا 0.57 فیصد) کا نقصان پہنچاتی ہے۔ صرف 2023 میں انٹرنیٹ پابندیوں کی وجہ سے مجموعی نقصان 65 ارب روپے تک پہنچ گیا، جس نے کاروبار، فری لانسرز اور بین الاقوامی صارفین کے ساتھ تعلقات کو متاثر کیا۔

پاکستان کی خدمت کی بنیاد پر چلنے والی صنعتوں کے لیے یہ پابندیاں صرف پریشانی کا سبب نہیں بلکہ بقا کو لاحق خطرات ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جو پاکستانی کاروباروں کو عالمی منڈیوں سے جوڑتے ہیں کلائنٹس سے رابطے اور ریونیو پیدا کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

 ڈیٹا رپورٹل کے مطابق جنوری 2024 تک پاکستان میں سات کروڑ 17 لاکھ سوشل میڈیا صارفین موجود تھے۔ کیپیوس کے تجزیے کے مطابق جنوری 2023 سے جنوری 2024 کے درمیان پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں دو کروڑ 40 لاکھ (27.1 فیصد) اضافہ ہوا، اور انٹرنیٹ کی رسائی کی شرح 45.7 فیصد تک پہنچ گئی۔

ایسے میں پلیٹ فارمز، مثال کے طور پر، ایکس پر پابندیاں لگانا یا قومی فائر وال جیسے اقدامات پاکستان کو عالمی سطح پر رابطے اور مواقع سے الگ تھلگ کر سکتے ہیں۔

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) نے خبردار کیا ہے کہ ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں 30 کروڑ  ڈالر سے زائد کا نقصان ہو سکتا ہے جس سے ہماری ڈیجیٹل معیشت کی صلاحیت مزید کمزور ہو گی۔

وی پی این پر پابندی ان چیلنجز کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ صرف پابندی سے بچنے کے ٹولز نہیں بلکہ ڈیٹا پرائیویسی کی حفاظت کرتے ہیں اور عالمی منڈیوں تک رسائی فراہم کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک ایسے وقت میں جب ڈیٹا سکیورٹی اور ڈیجیٹل شفافیت کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، یہ فیصلہ پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل دوڑ میں مزید پیچھے دھکیلنے کے خطرے کا باعث ہے۔

ایسی پابندیاں پاکستان کے لیے ڈیجیٹل سفارت کاری کے مستقبل پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔ ہماری قیادت کے بارے میں کیا تاثر پیدا ہوتا ہے، جو ایکس پر پابندی عائد کرتی ہے، لیکن پھر بھی اسے روزانہ بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے مختلف عالمی رہنماؤں کو مبارک باد دینے اور خوش آمدید کہنے میں مصروف رہتی ہے؟

میرے نزدیک یہ خود حکومت کا اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ ایکس ڈیجیٹل سفارت کاری کا ایک ناقابل تردید ذریعہ ہے۔ تو پھر ایسے ٹول کو کیوں بند کیا جائے جو پاکستان کے مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد دیتا ہے؟

سعودی عرب کی ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن (ڈی سی او) کے بانی رکن کی حیثیت سے، پاکستان کے پاس ڈیجیٹل اختراع اور شمولیت کو فروغ دینے میں قیادت کا نادر موقع ہے۔

آخرکار ڈی سی او کا قیام سرحد پار تعاون کو فروغ دینے اور رکن ممالک کے لیے ڈیجیٹل معیشت کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کے لیے کیا گیا ہے لیکن اپنے ملک میں لگائی جانے والی پابندیوں جیسے اقدامات اس تنظیم کے اہداف سے متضاد ہیں۔

غیریقینی صورت حال کا ماحول پیدا کرکے، ہم نہ صرف اپنے آپ کو ڈی سی او میں بلکہ ڈیجیٹل سفارت کاری کے وسیع تر نظام میں بھی الگ تھلگ کرنے کے خطرے سے دوچار ہو رہے ہیں۔

ردعمل کے طور پر نجی شعبے کی تنظیم پریڈا (پی آر، ایونٹس، ڈیجیٹل اینڈ ایکٹی ویشن) نے حال ہی میں حکومتِ پاکستان کو ایک خط ارسال کیا ہے۔ یہ خط جس پر مواصلات، ایونٹ مینیجمنٹ، ایکٹی ویشن اور ڈیجیٹل صنعتوں کی نمایاں کمپنیوں کے دستخط ہیں، مزید ترقی پسند اور شمولیتی پالیسی سازی کا واضح مطالبہ ہے۔

 یہ وہ کاروبار ہیں جو پاکستان کی جدید شناخت کو شکل دینے، اس کی ثقافت کو فروغ دینے اور ہزاروں نوجوان پیشہ ور افراد کے لیے مواقع پیدا کرنے میں پیش پیش رہے ہیں۔ ان کی اجتماعی آواز اس مسئلے کی سنگینی اور پاکستان کے ڈیجیٹل مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون پر نجی شعبے کی آمادگی کو اجاگر کرتی ہے۔

خط میں اٹھائے گئے مسائل پاکستان کی معیشت میں کام کرنے والوں کے تجربات سے گہرائی میں جا کر جڑے ہوئے ہیں۔ ان مسائل پر نجی شعبے کا اتحاد پاکستان کی ڈیجیٹل ترقی کے لیے وسیع عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ وہ صنعتیں ہیں جنہوں نے معاشی عدم استحکام کا مقابلہ کیا اور چیلنجز کے سامنے لچک کا مظاہرہ کیا۔

یہ پاکستان میں ڈیجیٹل انقلاب کو آگے بڑھانے والے اہم شعبوں میں شامل ہیں، جو ملازمتیں پیدا کر رہے ہیں اور اگلی نسل کے لیے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی وکالت اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ پالیسی فیصلے خلا میں نہیں ہوتے۔ یہ حقیقی لوگوں، حقیقی کاروباروں اور عالمی سطح پر قوم کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے ڈیجیٹلائزیشن کو اقتصادی ترقی کے ایک بنیادی ستون کے طور پر تسلیم کرنا حوصلہ افزا اقدام ہے لیکن الفاظ کو عمل کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایسی واضح، مستقل اور مستقبل پر مبنی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو سکیورٹی خدشات کو کھلے پن اور اختراع کی ضرورت کے ساتھ متوازن رکھیں۔ پابندیاں، فائر والز اور سنسر شپ ہمیں پیچھے لے جائیں گی۔ اب وقت ہے کہ ایسی پالیسیاں اپنائی جائیں جو پاکستان کو آگے بڑھائیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مصنفہ لوٹس کلائنٹ مینجمنٹ اینڈ پبلک ریلیشنز کی بانی، پریڈا کی صدر اور فوربز بزنس کونسل کی رکن ہیں۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر