خبر رساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا ہے کہ رواں سال انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے کھلاڑیوں کی نیلامی سعودی عرب میں ہو رہی ہے، جو کہ اس کرکٹ ٹورنامنٹ کو عالمی سطح پر لے جانے کی ایک کوشش ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تیل سے مالا مال معیشت کو متنوع بنانے کے لیے 2034 میں فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے کھیلوں میں غیر معمولی سرمایہ کاری کے حامی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق، اتوار سے جدہ میں شروع ہونے والی دو روزہ نیلامی اس نوعیت کا پہلا کرکٹ ایونٹ ہے، جس کی میزبانی سعودی عرب میں کی جائے گی۔
سعودی کرکٹ فیڈریشن کے چیئرمین شہزادہ سعود بن مشعل نے کہا کہ نیلامی کا انعقاد ’کھیل کے فروغ اور کھیلوں کے مقابلوں کے لیے عالمی مقام کے طور پر اپنی پوزیشن کو ظاہر کرنے کے لیے مملکت کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔‘
رائس یونیورسٹی کے کرسٹیان کوٹس الرچسن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ سعودی عرب کی جانب سے کھیلوں کے مقابلوں پر بڑے پیمانے پر خرچ کرنے سے ’بدلتی ہوئی سلطنت کے بیانیے کو فروغ دینے‘ میں مدد ملی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب فٹ بال اور باکسنگ کے حوالے سے سعودی عرب کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے۔ ان اخراجات سے موضوع بدلنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘
سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں عالمی چیمپیئن شپ باکسنگ، فارمولا ون ریسنگ، ٹینس اور گالف کی میزبانی کی ہے اور کرسٹیانو رونالڈو اور نیمار سمیت ٹاپ فٹ بالرز کو اپنی لیگ میں شامل کیا ہے۔
وزٹ سعودی جو کہ ریاستی سیاحتی ادارہ ہے، اور سرکاری ملکیتی توانائی کی کمپنی سعودی آرامکو دونوں انڈین پریمیئر لیگ (IPL) کے سپانسرز رہ چکے ہیں۔
کرکٹ کے شائقین
غیر ملکی مزدوروں کی وجہ سے سعودی عرب میں پہلے ہی کرکٹ کے مداح موجود ہیں۔
2022 کی مردم شماری کے مطابق، سعودی عرب کی تین کروڑ 22 لاکھ آبادی میں سے ایک کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ غیر سعودی شہری ہیں، جن میں سے 40 فیصد سے زیادہ کا تعلق پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا سے ہے، جہاں کرکٹ کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب کی کرکٹ فیڈریشن بھی سعودیوں میں اس کھیل کی مقبولیت کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور سکولوں میں اسے متعارف کرانے کے لیے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔
فیڈریشن کے ہیڈ کوچ کبیر خان نے اگست میں انگریزی روزنامہ عرب نیوز کو بتایا تھا کہ ’عام تاثر ہے کہ یہ ایک سٹریٹ گیم ہے۔ ہمیں اس تصور کو تبدیل کرنا ہے۔‘
پھیلتے ہوئے افق
بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کے لیے لازمی نہیں کہ وہ باقاعدگی سے اپنے مالی معاملات شائع کرے اور جدہ میں نیلامی کی میزبانی کے معاہدے کی تفصیلات بھی جاری نہیں کی گئی ہیں۔
لیکن آئی پی ایل نے 2008 میں اپنے آغاز کے بعد سے اربوں کمائے ہیں، جس نے بی سی سی آئی کو اس کھیل کی امیر ترین گورننگ باڈیز میں سے ایک بنا دیا ہے۔
دو سال قبل، اس نے آئی پی ایل کے پانچ سیزن کے نشریاتی حقوق عالمی میڈیا کمپنیوں کو 6.2 ارب ڈالر میں فروخت کیے تھے۔
اس کے کھلاڑیوں کی نیلامی لاکھوں افراد دیکھتے ہیں، جو یہ جاننے کے لیے پرجوش رہتے ہیں کہ کھیل کے بڑے ستارے کون سی ٹیموں میں شامل ہوں گے، اور بی سی سی آئی نے اس ایونٹ کو بیرون ملک منعقد کر کے ٹورنامنٹ کی شناخت بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
گذشتہ سال کی نیلامی دبئی میں ہوئی تھی، جو بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹس کے لیے معروف مقام ہے اور اس کے تارکین وطن کارکنوں کی آبادی میں ممکنہ شائقین کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔
انڈیا میں کرکٹ کے سینئر صحافی ایاز میمن نے اے ایف پی کو بتایا کہ رواں سال کی نیلامی سعودی عرب میں منعقد کرنے سے سعودی عرب اور بی سی سی آئی دونوں کو فائدہ ہوا۔
’سعودی حکام اپنے ملک میں کھیلوں کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں، اور آپ کو کھیل کے لیے زیادہ آگاہی پھیلانے کی صورت میں آئی پی ایل کے افق کو وسعت دینے کا موقع ملے گا۔‘
ریکارڈ توڑنے والے
اس سال مجموعی طور پر 574 کھلاڑی نیلامی کے لیے دستیاب ہوں گے، جن میں انڈین وکٹ کیپر ریشب پنت، انگلینڈ کے تجربہ کار جیمز اینڈرسن، اور نیوزی لینڈ کے آل راؤنڈر راچن رویندر شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسٹریلوی فاسٹ بولر مچل سٹارک نے آخری بار کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے ساتھ 29 لاکھ 80 ہزار ڈالر میں معاہدہ کر کے نیلامی کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔
ٹورنامنٹ میں شریک ٹیموں کی جانب سے کھلاڑیوں کے بڑھتے ہوئے معاوضے کا مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی قیمت بھی بڑھتی جائے گی۔
ممبئی میں قائم ایڈوائزری فرم ایلارا کیپیٹل کے میڈیا تجزیہ کار کرن تورانی نے اے ایف پی کو بتایا، ’ہمیشہ کی طرح، کچھ کھلاڑی آپ کو ریکارڈ توڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔‘
تورانی نے کہا کہ تمام بڑے ناموں کے باوجود، نیلامی کی فہرست میں شامل کئی کرکٹرز ایسے نوجوان کھلاڑی ہیں جو اپنے کیریئر کے آغاز میں ہیں، اور آئی پی ایل کا معاہدہ حاصل کرنا ان کے لیے بڑی کمائی کا پہلا موقع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسے زیادہ کھلاڑی نہیں ہیں جن کے پاس دو سے تین سال سے زیادہ کا بین الاقوامی تجربہ ہو۔ ایسے کھلاڑیوں کو معاوضے کے لحاظ سے ایک بڑا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔‘
اگلے سال کے آئی پی ایل کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن سیزن عام طور پر مارچ سے مئی تک چلتا ہے