’پہلے تو میں استعمال شدہ اشیا مختلف جگہوں پر جا کر جمع کرتی تھیں لیکن اب خواتین خود میرے گھر ایسی اشیا بھجواتی ہیں، جس سے ماحول بھی صاف رہتا ہے اور میرے لیے یہ ذریعہ معاش بھی ہے۔‘
پشاور سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نادیہ قریشی استعمال شدہ اشیا سے کار آمد چیزیں بناتی ہیں اور دوسری خواتین کو بھی اس چیز کی تربیت دیتی ہیں۔
نادیہ نے یہ کام دو سال قبل شروع کیا تھا جب وہ گھر گھر جا کر استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلیں، سٹراز، آئس کریم کے ڈبے اور دوسرا کچرا جمع کرتیں اور ان سے سجاوٹ کی مختلف چیزیں بناتی تھیں۔
نادیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے کام کا بنیادی مقصد پاکستان میں موسمیاتی تغیر سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’فضلات میں ایک آرگینک یا نامیاتی (گلنے سڑنے والا) کچرا ہے، جیسے سبزیاں، خوراک کی چیزیں وغیرہ جو زمین میں گل سڑ جاتی ہیں، لیکن اِن آرگینک یا غیر نامیاتی (نہ گلنے سڑنے والی) اشیا بھی ہوتی ہیں، جن میں پلاسٹک وغیرہ شامل ہیں، جو کئی کئی سالوں تک زمین میں پڑی رہتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اِن آرگینک کچرے سے ماحول سمیت انسانی صحت، آبی زندگی اور جانور بھی متاثر ہوتے ہیں۔
نادیہ اب گھروں سے استعمال شدہ بوتلیں، ڈبے، کاغذ، چمچ اور دیگر چیزیں اکھٹا کر کے ان سے گلدان، سجاوٹی بوتلیں، گفٹ پیک، لفافے اور دوسری چیزیں بناتی ہیں۔
کچرے کو قابل استعمال بنانے سے قبل نادیہ ایک مقامی کالج میں پاکستان سٹڈیز کی استاد تھیں۔
ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے میں کردار ادا کرنے کے علاوہ یہ کام نادیہ قریشی کے لیے معاش کا ذریعہ بھی ہے۔
وہ فیس بک اور انسٹا گرام کے ذریعے آرڈرز وصول کرنے کے علاوہ فون اور بالمشافہ بھی بکنگز لیتی ہیں۔
نادیہ قریشی نے بتایا کہ وہ ایک طرف ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں تو دوسری جانب یہ ان کے لیے کمائی کا بھی ایک اچھا ذریعہ ہے۔
’میں اب خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے انہیں اس کام کی تربیت بھی دیتی ہوں۔‘
نادیہ کے خیال میں حکومتی سطح پر ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدمات نہیں لیے جا رہے اور حکومت کو اس پر خاص توجہ دینی چاہیے۔