چیمپیئنز ٹرافی: پاکستان کو ’منصفانہ‘ معاہدے کی توقع

چیمپیئنز ٹرافی ٹورنامنٹ، جو 19 فروری 2025 سے نو مارچ 2025 تک شیڈول ہے، انڈیا کے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کے بعد غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔

21 نومبر 2024 کی اس تصویر میں کراچی میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کی رونمائی کی تقریب (اے ایف پی/ رضوان تبسم)

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جمعے کو ہونے والی ایک بورڈ میٹنگ میں یہ طے ہو گا کہ چیمپئینز ٹرافی کی میزبانی پاکستان کے حصے میں آئے گی یا نہیں۔

چیمپیئنز ٹرافی ٹورنامنٹ، جو 19 فروری 2025 سے نو مارچ 2025 تک شیڈول ہے، انڈیا کے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کے بعد غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔

چیمپئنز ٹرافی فروری اور مارچ 2025 کو پاکستان کے تین مقامات پر منعقد ہونے والی ہے لیکن انڈیا نے آئی سی سی کو بتایا کہ ان کی حکومت انہیں اس ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان جانے کی اجازت نہیں دے رہی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان سمیع الحسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’دو روز قبل آئی سی سی نے بتایا تھا کہ 29 نومبر کو بورڈ کی ورچوئل میٹنگ ہے جس میں میچوں کے شیڈول اور مقامات کے بارے میں بات ہو گی۔ اس میٹنگ میں چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بھی شریک ہوں گے۔‘

چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چیمپئینز ٹرافی پاکستان میں ہی کھیلی جائے گی۔

چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب قذافی سٹیڈیم میں ایک پریس کانفرنس بھی کی جس میں ان کا کہنا تھا: ’میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم وہ کریں گے جو پاکستان کرکٹ کے لیے بہتر ہو گا۔ میں مسلسل آئی سی سی کے چیئرمین کے ساتھ رابطے میں ہوں اور میری ٹیم ان سے مسلسل بات کر رہی ہے۔

’ہم اب بھی اپنے موقف میں واضح ہیں کہ ایسا قابل قبول نہیں ہے کہ ہم انڈیا میں کرکٹ کھیلتے ہیں، اور وہ یہاں کرکٹ کھیلنے نہ آئیں، ہم نے آئی سی سی کو واضح بتا دیا ہے کہ جو بھی ہوگا، برابری کی بنیاد پر ہوگا۔‘

دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ’ہائی برڈ‘ ماڈل کے تحت کھیلی جائے یعنی اس کے بیشتر میچ پاکستان میں ہوں لیکن انڈیا سے کھیلے جانے والے میچز کسی اور ملک میں کھیلے جائیں اور اگر انڈیا فائنل تک پہنچ جاتا ہے تو وہ میچ بھی کسی اور ملک میں جا کر کھیلا جائے۔

ہائبرڈ ماڈل کے حوالے سے بھی محسن نقوی پہلے بھی صاف لفظوں میں انکار کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا نے اب تک میں کوئی تحریری اعتراض فراہم نہیں کیا۔ اب تک ہائبرڈ ماڈل پر کوئی بحث نہیں ہوئی، اور نہ ہی ہم اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

محسن نقوی کا کہنا تھا: ’ہم جو بھی کریں گے، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کے لیے بہترین نتائج برآمد ہوں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان انڈیا میں کھیلے اور وہ یہاں نہ آئیں۔‘

محسن نقوی نے کہا کہ آئی سی سی میٹنگ میں لیا گیا کوئی بھی فیصلہ پی سی بی حتمی منظوری کے لیے حکومت پاکستان کے پاس لے جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا چیمپئینز ٹرافی 2025 پاکستان میں ہو گی یا ہائی برڈ ماڈؒل پر؟ اس حوالے سے ہم نے سابق کپتان سلیم ملک سے بھی بات کی۔

سابق کپتان کرکٹ ٹیم سلیم ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’معاہدے کے بعد انڈیا کا اس طرح مکر جانا اور آئی سی سی کا پاکستان کو یہ کہنا کہ ہائبرڈ طرز پر اس چیمپئین شپ کروا لیں یہ آئی سی سی کی کمزروی ظاہر کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’آئی سی سی کو اس پر ڈٹ کر کھڑے ہونا چاہیے تھا اور انڈیا کو مجبور کرنا چاہیے تھا کہ وہ پاکستان میں کرکٹ آ کر کھیلے لیکن یہ کتنی زیادتی کی بات ہے کہ چیمپیئن شپ کی میزبانی پاکستان کر رہا ہے اور جو انڈیا پاکستان کے اہم میچز ہیں وہ یقیناً کرکٹ کے معیار کے لیے بھی اچھے ثابت ہوتے ہیں اور ان سے ریوینیو بھی بہت اکٹھا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اب اگر انڈیا کسی اور ملک میں کھیلے گا تو ریوینیو بھی کم ہو گا اور دوسرا وہ عوام یا شائقین جو پاکستان میں اچھی ٹیموں کو کھیلنا دیکھنا چاہتے ہیں، ان سے بھی یہ زیادتی والی بات ہوگی۔

سلیم ملک کے خیال میں ’اس وقت مجبوری ہے کیونکہ ہم انڈیا کو منفی نہیں کر سکتے نہ کوئی ایسی مثال ہے کہ ایک ٹیم انکار کر دے تو اس کی جگہ کسی اور ٹیم کو کھلا لیں اس لیے اس مسئلے کا آخر کار حل ہائبرڈ میں ہی نکلے گا کیونکہ آئی سی سی، بی سی سی آئی کے خلاف نہیں جا سکتا۔ عملی طور پر انڈیا کرکٹ پر حکمرانی کر رہا ہےان کا بورڈ بھی بہت مضبوط ہے۔‘

سینیئر سپورٹس تجزیہ نگار زاہد مقصود نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس میں سب سے اچھی بات یہ ہے کی پی سی بی نے پہلی بار سٹینڈ لیا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ انڈیا کی بات مانتے تھے اور چپکے سے اپنی ٹیم بھیج دیتے تھے اور ہم سے سب سے بڑی غلطی تب ہوئی جب نجم سیٹھی کی چیئرمین شپ میں ایشیا کپ میں ہم نے ہائی برڈ ماڈل تسلیم کیا۔

’اس کے بعد پاکستانی ٹیم انڈیا میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں گئی اس وقت ذکا اشرف کا دور تھا اور پاکستان نے کوئی بات اس وقت نہیں منوائی۔ اس دور میں ایک آدھ بات منوا سکتے تھے کہ انڈیا بھی پاکستان آئے گا لیکن پاکستان نے ایسا کچھ نہیں کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کہ ٹیم آخری بار 2008 میں پاکستان آئی۔

’انڈیا کی حکومت یہ چاہتی ہی نہیں کہ ان کی ٹیم پاکستان آئے اور اس کے پیچھے سکیورٹی وجہ نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کے ذہن میں یہ ہے کہ پاکستان انڈیا سے میچ کھیل کر پیسے کماتا ہے جو پی سی بی خرچ کرتا ہے اس لیے اس انکار کا مقصد صرف پاکستان کو مالی نقصان پہنچانا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب سوال یہ ہے کہ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے تو اس کا حل کیا نکلے گا؟

’بات بورڈ میٹنگ میں چلی گئی ہے۔ صرف دودن کے بعد آئی سی سی کا چیئر مین تبدیل ہو رہا ہے اور جے شاہ چیئر مین بن جائیں گے اور اس تبدیلی سے پہلے بورڈ کی ہنگامی میٹنگ ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ بورڈ میں اگر بات ووٹنگ تک گئی تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ فیصلہ پاکستان کے لیے کوئی خاص اچھا نہیں ہوگا کیونکہ بورڈ ممبرز کسی نہ کسی حوالے سے انڈیا سے متاثر لگتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ چیمپئن ٹرافی پاکستان میں ہی ہو آئی سی سی بھی مان جائے اور انڈیا کو ایک میچ یہاں کھیلنے کے لیے راضی کر لیں۔ اس میں پی سی بی کی بھی بات رہ جائے گی اور آئی سی سی بھی جو انڈیا اور پاکستان کے نام پر اچھا خاصہ معاوضہ کماتا ہے اس مسئلے کو یوں حل کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس لیے ضروری ہے کہ تھوڑی بہت لچک پاکستان دکھائے اور کچھ انڈیا دکھائے۔

 پاکستان کو ’منصفانہ‘ معاہدے کی توقع

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان کو چیمپیئنز ٹرافی کے حوالے سے جمعے کو ہونے والے آئی سی سی اجلاس میں ایک ’منصفانہ‘ معاہدے کی توقع ہے۔

پی سی بی نے کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں تین سٹیڈیمز کی تزئین و آرائش پر بہت زیادہ پیسے خرچ کیے ہیں، جس سے پاکستان کے عزم کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ ایونٹ کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔

جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں سے جاری کشیدہ سیاسی صورت حال کے باعث انڈیا نے 2008 کے بعد سے پاکستان میں کوئی بھی بین الاقوامی کرکٹ میچ نہیں کھیلا، جب وہ ایشیا کپ میں شریک ہوا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ