’دہشت گردی کے واقعات‘ میں وی پی این استعمال ہوا: وزیر مملکت آئی ٹی

وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ گذشتہ ماہ 100 سے زائد سکیورٹی اہلکار انٹرنیٹ کے ذریعہ چلنے والے دیسی ساختہ بموں (آئی ای ڈی) سے مارے گئے ہیں۔

چیئرپرسن سینیٹر پلوشہ خان کے زیر صدارت کمیٹی میں ملک میں انٹرنیٹ میں خلل اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) سے متعلق معاملہ پانچ دسمبر 2024 کو اجلاس میں زیر غور آیا (انڈپینڈنٹ اردو)

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) نے جمعرات کو کہا ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسند جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں جبکہ گذشتہ ماہ 100 سے زائد سکیورٹی اہلکار انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والے دیسی ساختہ بموں (آئی ای ڈی) سے مارے گئے ہیں۔

وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ نے یہ انکشاف آج سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے اجلاس کے دوران کیا۔

چیئرپرسن سینیٹر پلوشہ خان کے زیر صدارت کمیٹی میں ملک میں انٹرنیٹ میں خلل اور ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) سے متعلق معاملہ زیر غور آیا۔

دوسری جانب چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) نے اس معاملے پر کہا ہے کہ ’ہم یکم جنوری کو لائسنسنگ مکینزم/وی پی این رجیم لے کر آ رہے ہیں۔‘

اجلاس کے آغاز میں وزیر مملکت نے ٹیکنالوجی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں پاکستان میں ’دہشت گردی‘ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

’دہشت گردی میں بہتر ٹیکنالوجی استمعال ہو رہی ہے، بعض دہشت گردی کے حملوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا ہے۔ ‘

چیئرپرسن کمیٹی نے سوال کیا کہ ’اس کا مطلب ہے دہشت گردوں کے پاس بہتر ٹیکنالوجی ہے؟‘ جس پر شزا فاطمہ نے جواب دیا، ’بہتر ٹیکنالوجی کی بات نہیں وی پی این کی بات ہے، وی پی این آپ کی شناخت ماسک کرتا ہے۔ ہم پالیسی بنا رہے ہیں اور پیکا ترامیم زیر غور ہیں۔‘

وزیر مملکت نے کہا کہ ’گذشتہ ماہ 100 سے زائد سکیورٹی اہلکار انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والے آئی ای ڈیز (IEDs) سے مارے گئے ہیں۔‘

سینیٹر افنان نے کہا کہ ’کون سا واقعہ انٹرنیٹ سے چلنے والے آئی ای ڈی کے ذریعے ہوا؟ ایک واقعہ بتا دیں جس میں دہشت گرد نے وی پی این استمعال کیا؟‘

جس پر شزا فاطمہ نے کہا کہ قومی سلامتی سے متعلق کسی سوال کا جواب وہ اوپن فورم پر نہیں دے سکتیں اور نہ سکیورٹی پر زیادہ بات کر سکتی ہیں۔

سینیٹر افنان اللہ نے کہا: ’آپ نے اتنا بڑا بیان دیا ہے تو کچھ بتائیں، یا آپ بتائیں ہم کون سا سوال کر سکتے ہیں اور کون سا نہیں۔ شزا فاطمہ نے جواب دیا وہ یہ اِن کیمرا بتا سکتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے سے قبل چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ انٹرنیٹ مسلسل سست روی کا شکار ہے۔

جبکہ سیکریٹری آئی ٹی نے کہا کہ کچھ ایپلی کیشنز کا مسئلہ ہے جو نہیں چل رہیں۔

چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ ‘پاکستان میں 275 میگا ہرٹز چل رہا ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ انڈیا میں ’بھارت کنیکٹ‘ کے ذریعے 22 لاکھ گاؤں میں انٹرنیٹ فراہم کیا گیا۔

’ہم یکم جنوری کو لائسنسنگ مکینزم/وی پی این رجیم لے کر آ رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر نے 335 ارب روپے ریوینیو دیا۔ سینیٹر افنان اللہ نے سوال کیا: ’کیا پی ٹی اے/وزارت آئی ٹی پر یہ آمدنی لگائی گئی؟‘

اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے نفی میں جواب دیا۔

چئیرمین پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) سجاد سید نے کہا، ’انٹرنیٹ میں ڈی گریڈیشن ہوئی ہے، وی پی این کبھی چلتے ہیں کبھی نہیں چلتے، انٹرنیٹ چلتا ہے اور پھر سلو ہو جاتا ہے۔ 30 لاکھ گھرانے انٹرنیٹ پر منحصر ہیں۔ جبکہ آئی ٹی کی صنعت 30 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔‘

اجلاس کے دوران سپیشل سیکریٹری وزارت داخلہ نے انٹرنیٹ میں سست روی سے متعلق کہا کہ ’انٹرنیٹ کو لے کر وزارت کی جانب سے کچھ نہیں کہا گیا۔ وزارت نے غیر قانونی وی پی این کو بلاک کرنے کا کہا۔‘

سینیٹر انوشہ رحمٰن نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ ملک بھر میں جو بھی وی پی این استمعال کر رہا ہے وہ جرم کر رہا ہے؟ ’غیر قانونی‘ کا کیا مطلب ہے؟‘

سینیٹر انوشہ رحمٰن نے کہا کہ ’وزارت داخلہ نے یہ غیر قانونی لفظ کیسے استعمال کیا ہے؟ کیا وی پی این غیر قانونی ڈکلیئر کردیے گئے ہیں؟ دنیا میں کہیں بھی ڈجیٹیلیٹی کو بند نہیں کیا گیا لیکن بعض چیزوں کو انٹرنیٹ بند کیے بغیر کنٹرول کیا گیا ہے؟ انٹرنیٹ بند کیے بغیر بھی ایکس، وی پی این وغیرہ بند کیا جا سکتا ہے۔ ‘

چیئرپرسن کمیٹی پلوشہ خان نے کہا کہ ’ہمیں پالیسی بتائیں کہ کس پالیسی پر چلنا چاہتے ہیں، کیسے آگے بڑھنا چاہتے ہیں؟‘

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے وزیر مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جو وہ کر رہے ہیں اسے قانونی کور حاصل ہے؟‘

سینیٹر انوشہ رحمٰن نے وزارت داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ پیکا قانون کا حوالہ نہیں دے سکتے کیونکہ انفارمیشن سسٹم کا حوالہ پیکا قانون میں شامل نہیں۔‘

وزیر مملکت شزا فاطمہ نے کہا کہ احتجاج اور بیلاروس کے صدر کی آمد کے پیش نظر انٹرنیٹ کی بندش کی گئی۔

چیئرپرسن کمیٹی نے سوال کیا کہ ’وزیر اعظم سمیت متعدد عہدے داران ایکس جیسی ایپلی کیشنز کیسے استمعال کر رہے ہیں؟‘

چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ ’اگر کوئی ایسا کر رہا ہے تو میں اس پر کوئی جواب نہیں دے سکتا، ہم نے کوئی وی پی این بلاک نہیں کیا۔ جب ملک کی سکیورٹی پر بات آتی ہے اور وزارت داخلہ کی جانب سے خط آتا ہے تو میں انٹرنیٹ بند کرتا ہوں۔‘

چیئرپرسن کمیٹی نے چئیرمین پاشا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا بطور سٹیک ہولڈر پی ٹی اے نے آپ کو آن بورڈ لیا؟‘

جس پر انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی اے نے پالیسی پر بات کرنے کے لیے ہمیں نہیں بلایا لیکن کچھ روز قبل انٹرنیٹ بندش سے متعلق آگاہ کیا گیا تھا۔‘

بعد ازاں چیئرپرسن کمیٹی نے اگلے اجلاس میں ٹیلی کام کمپنیوں، چیئرمین پی ٹی اے اور اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان