پی ٹی آئی مائنس کانفرنس اور شیر، گیدڑ اور لومڑی کی کہانی

کانفرنس میں ایک چیز جس کا ذکر کسی نے بھولے سے بھی ذکر نہیں کیا وہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ تھا۔

 پانچ دسمبر 2024 کو ہونے والی کانفرنس میں سب جماعتیں شریک ہوئیں، سوائے صوبے کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کی (انڈپینڈنٹ اردو)

خیبر پختونخوا میں حکمراں تحریک انصاف پاکستان پر بظاہر ایک جوابی سیاسی حملہ پشاور کے عالیشان گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں جمعرات کو ہوا۔ وہ سفید محل جسے پی ٹی آئی کسی زمانے میں یونیورسٹی بنانے کا ارادہ رکھتی تھی، یہاں اسی کی غیر موجودگی میں صوبے کے مسائل پر بات ہو رہی تھی۔

یہ وہی ہال ہے جہاں 2014 کے دسمبر میں ہی آرمی پبلک سکول سانحے کے بعد صوبائی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی تھی اور دہشت گردی کے خاتمے کا فیصلہ ہوا تھا۔ آج دس سال ایک مرتبہ پھر صوبے کی اکثر سیاسی جماعتیں مل بیٹھی ہیں اور زیر غور مسئلہ محض شدت پسندی کا دوبارہ سر اٹھانا نہیں بلکہ بگڑتی معاشی صورت حال بھی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شدت پسند حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (پپس) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں ماہ نومبر میں 41 حملے ہوئے جن میں کرم میں دو فرقہ وارانہ واقعات بھی شامل ہیں جن میں 114 افراد ہلاک اور 95 زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں مبینہ طور پر کالعدم ٹی ٹی پی، حافظ گل بہادر گروپ، لشکر اسلام اور چند دیگر مقامی طالبان گروپ ملوث تھے۔

اگرچہ پانچ گھنٹے کے طویل اجلاس میں پی ٹی آئی پر معمول کے علاوہ کوئی زیادہ تنقید نہیں ہوئی لیکن اسے بار بار کے دھرنوں اور احتجاج سے باز رہنے کے مشورے دیے گئے۔ صوبے میں امن عامہ کی صورت حال پر سب نے تشویش کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت کو اس میں بری طرح ناکام قرار دیا، لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کیا اس کی ذمہ دار کیا صرف صوبائی حکومت ہے۔ 

صوبائی حکومت کے سب سے زیادہ بڑے ناقد اس ’کل جماعتی کانفرنس‘ کے میزبان، پیپلز پارٹی کے رہنما اور گورنر فیصل کریم کنڈی دکھائی دیے۔ وہ تنقید میں پیش پیش رہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پی ٹی آئی آ جاتی تو اس کے اپنے ہاتھ مضبوط ہوتے۔

وہ پاکستانی سیاسی ماحول کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ تمام سیاسی قیادت کا اکٹھے ہونا شاید بدقسمتی سے سانحات کے بعد تو ممکن ہو لیکن روزانہ کی قتل و غارت گری اب ایک معمول بن چکا ہے۔ لیکن ان کی بات میں وزن ہے اگر یہ درست ہے کہ امن و امان کی صورت حال پر آج تک صوبائی کابینہ یا اسمبلی میں بات کیوں نہیں ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی تقسیم کے خاتمے کے اس ملک میں ابھی کوئی اشارے بھی نہیں۔ سب سیاسی مقاصد کے لیے لڑ رہے ہیں عوام کا فی الحال کوئی نہیں سوچ رہا ہے۔ اگر عوام کا مفاد حاصل کرنا ترجیح ہو تو شاید یہ سیاست دان ایک دوسرے کو برادشت کر سکیں۔

سٹیج پر صوبے کی سیاسی جماعتوں کی ماسوائے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ کے علاوہ تمام رہنما سیکنڈ کیڈر تھے۔ فیصل کریم کے ساتھ شانہ بشانہ براجمان مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر انجینیئر امیر مقام بھی لوکل پچ پر کھیل رہے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزارت ہو نہ ہو لیکن شلوار قمیض پہنے کسی کو بھی افغان یا پشتون سمجھ کر پولیس کی جانب سے اٹھائے جانا قابل قبول نہیں۔ وہ اسلام آباد میں پولیس کی جانب سے پشتونوں کے خلاف جاری کسی غیراعلانیہ کارروائی کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ صوبے کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

تمام گفتگو میں ایک چیز غائب کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ذکر تھا۔ کسی نے غلطی سے بھی اس جانب اشارہ نہیں کیا۔ سب لاشعوری طور پر بظاہر طاقت کے ذریعے ان کے مقابلے کے حق میں ہی دکھائی دیے۔ ہال میں موجود اکثریت یقیناً ان افراد کی ہے جو شدت پسندی کے براہ راست متاثرین ہیں۔ ان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افتخار حسین اور سابق گورنر شوکت اللہ جیسے سیاست دان بھی تھے جنہوں نے بیٹوں اور بھائیوں کو بچھڑتے دیکھا۔ خود امیر مقام بھی کئی بار بال بال بچے ہیں۔

یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اہل سنت اور اہلِ تشیع ملک کے دیگر علاقوں میں بھی رہتے ہیں تو پھر تشدد خیبر پختونخوا میں کیوں ہوتا رہتا ہے؟ کسی نے کہا کہ مسئلہ نہ فرقہ وارانہ اور نہ ہی مسلکی ہے بلکہ جغرافیائی ہے۔ کرم کے تانے بانے دور دور تک جاتے ہیں۔

پشاور سیاسی طور پر اتنا پسماندہ نہیں جتنا کہ کانفرنس میں دکھائی دیا۔ چالیس پچاس مردوں میں صرف دو خواتین دکھائی دیں۔ بولنے کا موقع ایک کو بھی نہیں دیا گیا۔ نئی پارٹی پی ڈی ایم کی بشری گوہر نے ایکس پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔ ویسے دکھائی پی ٹی ایم بھی نہیں دی۔

معاشی محاذ پر صوبے کو وفاق سے ایک دائمی شکایت رہی ہیں اور وہ ہے مناسب وسائل کا نہ ملنا۔ کبھی پن بجلی اور کبھی این ایف سی، لیکن اس کانفرنس کے آغاز میں پالیسی کے ماہر اور پی آئی اے کے سابق سی ای او مشرف رسول سیان نے اعدادوشمار کے ساتھ بتایا کہ وفاق نے فیڈریشن کے اصول کی بڑی خلاف ورزی کیسے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی اصول ہے کہ ’فنانس فالوز فنکشن‘ یعنی کام ملنے کے بعد وسائل بھی اسے پورا کرنے کے لیے ملتے ہیں، لیکن سابق فاٹا کے اضلاع کے صوبے میں انضمام کے بعد سے صوبے کو وہ وسائل نہیں ملے جو ان پسماندہ اضلاع کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔

پشاور سیاسی طور پر اتنا پسماندہ نہیں جتنا کہ کانفرنس میں دکھائی دیا۔ چالیس پچاس مردوں میں صرف دو خواتین دکھائی دیں، بولنے کا موقع ایک کو بھی نہ ملا۔ 

 

سابق فاٹا سے اراکین اسمبلی کے رہنما سینیٹر شوکت اللہ نے کہا کہ ان اضلاع کے لیے این ایف سی سے تین فیصد کا وعدہ ہوا تھا جو آج تک وفا نہیں ہوا۔ ان کی ناامیدی کی حد یہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ اب انہوں نے مانگنا ہی چھور دیا ہے۔

اس تحریر کا اختتام جعمیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا عطا الرحمان کی کانفرنس کی مختصر ترین تقریر پر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک لطیفے پر اکتفا کیا:

’شیر، لومڑی اور گیدڑ کسی جنگل میں شکار کو نکلے۔ تینوں نے مل کر ایک ہاتھی، ہرن اور خرگوش کا شکار کر لیا۔ بات جب تقسیم کی آئی تو شیر نے پہلے گیدڑ سے دریافت کیا کہ اس شکار کی تقسیم کیسے کی جائے؟ اس نے کہا کہ ہاتھی شیر کو دے دیں، ہرن لومڑی اور خرگوش مجھے یعنی گیدڑ کو۔ شیر کو غصہ آیا اور اس نے گیدڑ کو تھپڑ رسید کر دیا۔ پھر لومڑی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ سرکار خرگوش ناشتہ میں آپ کھا لیں، ہرن ظہرانے اور ہاتھی عشائیے میں۔‘

’شیر نے خوش ہو کر پوچھا، ’تم اتنی عقل مند کب سے ہوئی، تو اس کا جواب تھا، گیدڑ کا حشر دیکھ کر!‘

مولانا صاحب یہ وضاحت کانفرنس کے شرکا پر چھوڑ دی کہ شیر، ہاتھی، گیدڑ اور لومڑی کون ہیں اور اس کہانی کا موجودہ حالات سے کیا تعلق ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر