خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) اور ٹانک کی انتظامیہ اور پولیس نے ان علا قوں میں فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے تعینات سرکاری ملازمین کو سفر محدود رکھنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
ڈی آئی خان کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مراسلے میں سرکاری ملازمین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو شدت پسندوں کے ہاتھوں اغوا ہونے کے خطرے اور امکانات سے خبردار کیا گیا ہے۔
مراسلے کے مطابق اغوا کا خطرہ بنوں اور ڈی آئی خان روڈ سمیت ڈی آئی خان ژوب اور ڈی آئی خان ٹانک روڈز پر ہے۔
مراسلے کے مطابق: ’تمام سرکاری ملازمین غیر ضروری سفر اور قیام سے گریز کریں اور سفر کے لیے ہمیشہ ایک روٹ استعمال نہ کریں۔ ٹانک، وزیرستان اپر اور لوئر اور درازندہ روڈ کو سفر کے لیے استعمال کرنے سے گریز کریں۔‘
اسی طرح کا ایک مراسلہ ضلع ٹانک کے ڈپٹی کمشنر نے بھی جاری کیا ہے، جس کے مطابق تمام ملازمین کو ٹانک ڈی آئی خان روڈ استعمال کرنے سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے۔
مراسلے میں سرکاری دفاتر کی عمارتوں میں سی سی ٹی کیمروں کی تنصیب یقینی بنانے اور ان کی چار دیواریاں آٹھ سے نو فٹ اونچی رکھنے کی ہدایات بھی کی گئی ہیں۔
مراسلے میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’سرکاری دفاتر کے مرکزی دروازوں پر چوکیدار کی موجودگی لازمی بنانے کے علاوہ چار دیواریوں پر خاردار تاریں لگائی جائیں اور اندر جانے والے تمام افراد کی تلاشی لینا ضروری قرار دیا جائے۔‘
ملازمین کو رات کے وقت غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت کرتے ہوئے مراسلے میں سرکاری محکموں کے عملے کی فہرستیں ضلعی پولیس دفتر بھجوانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے موجودہ وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور، گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی اور صوبائی پولیس سربراہ (آئی جی پی) اختر حیات خان تینوں اہم عہدیداروں کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے۔
جنوبی اضلاع بشمول ٹانک، بنوں، ڈی آئی خان، لکی مروت اور شمالی و جنوبی وزیرستان گذشتہ عرصے سے شدت پسندی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں آئے روز پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس سے قبل ان اضلاع سے سرکاری ملازمین، ججز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے اغوا کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
گذشتہ روز بھی ڈی آئی خان کے درازندہ روڈ پر پولیس اور ایف سی کی مشترکہ چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں 10 سکیورٹی اہلکار جان سے چلے گئے تھے۔
ٹانک میں اس سال اپریل میں جنوبی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاکر اللہ کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہیں بحفاظت بازیاب کرا لیا گیا تھا۔ اسی سال جنوبی و شمالی وزیرستان کے ججز کے قافلے پر حملہ بھی ہوا تھا، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے ٹانک میں موجود ٹانک اور جنوبی و شمالی وزیرستان کے مقامی عدالتیں بھی ڈی آئی خان منتقل کر دی گئی تھیں۔
حالات خراب لیکن صوبائی حکومت کہاں ہے؟
مبصرین کے خیال میں امن و امان کی اس مخدوش صورت حال میں صوبائی حکومت کی جانب سے مذمتوں اور بیانات کے علاوہ کوئی اقدام نظر نہیں آرہا۔
فرزانہ علی پشاور میں مقیم سینیئر صحافی و تجزیہ کار ہیں، جن کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب عام لوگ بھی ڈی آئی خان ٹانک روڈ یا ڈی آئی خان ژوب روڈ استعمال کرنے سے کترا رہے ہیں۔
فرزانہ علی کے مطابق کہ ان حالات سے متعلق تقریباً ایک سال سے عوام اور میڈیا بتا رہے تھے لیکن کسی کو پروا نہیں تھی اور اب اس سب کا نتیجہ سامنے آگیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہی حالات 2008 اور 2009 میں بھی تھے جب پولیس تھانوں تک محدود ہو گئی تھی اور خصوصاً رات میں باہر نہیں نکل سکتی تھی۔ وہی حالات اب دوبارہ بن گئے ہیں۔‘
حکومت کی جانب سے کیا قدامات ہو رہے ہیں، اس سوال کے جواب میں فرزانہ علی نے بتایا کہ امن و امان صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور صوبے کے وزیر اعلٰی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی پہلی ترجیح عمران خان کو جیل سے نکلوانا ہے۔
فرزانہ علی کے مطابق جنوبی اضلاع سمیت کرم میں گذشتہ 18 دنوں سے روڈ بند ہے اور وزیر اعلٰی خود کہہ چکے ہیں کہ یہ شیعہ سنی نہیں بلکہ زمینی تنازع ہے لیکن صوبائی حکومت اس مسئلے کے حل میں ناکام ہے۔
فرزانہ علی کا خیال ہے کہ ’پی ٹی آئی نے اس صوبے کی عوام اور ایک ادارے کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے اور یہی رویہ دشمن کی طاقت بن گئی ہے۔ جتنے بھی حملے ہو رہے ہیں، وہ مقامی شدت پسند گروپ کر رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زمینی حقائق کیا ہیں؟
ضلع ٹانک سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری ملازم نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اب حالات ایسے ہیں کہ سرکاری ملازمین نے جیب میں سرکاری ملازمت کا کارڈ رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب ہم صرف قومی شناختی کارڈ اپنے پاس رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ضلع ٹانک کے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر ضلعی انتظامیہ کے افسران چونکہ ٹانک میں رہتے ہیں تو ڈیوٹی آنے کے لیے انہوں نے سرکاری گاڑیوں سے یا تو نمبر پلیٹس ہٹا دی ہیں اور یا وہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر رہے ہیں۔
سرکاری اہلکار کے مطابق، ’بعض عام سواریوں کی گاڑیوں میں صبح سویرے اور یا روزانہ وقت تبدیل کر کے دفاتر جاتے ہیں تاکہ ان کی موومنٹ کا پتہ نہ لگ سکے اور اب ٹانک میں سرکاری ملازمت کرنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔‘
ڈی آئی خان میں مقیم وائس اف امریکہ سے منسلک صحافی عدنان بیٹنی، جو جنوبی اضلاع سے رپورٹ کرتے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان سرکاری مراسلوں سے تو لگتا ہے کہ ان علاقوں میں حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے۔
عدنان بیٹنی نے بتایا کہ بظاہر تو مراسلے سرکاری ملازمین کے لیے ہیں لیکن جن شاہراوں پر غیر ضروری سفر سے گریز کا کہا گیا ہے یہ اہم شاہراہیں ہیں، جو ڈی آئی خان کی پنجاب اور سندھ سے سرحدات ملتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا، ’عام لوگوں نے بھی ان شاہراہوں کو استعمال کرنا کم کر دیا ہے جس سے عام لوگوں کا کاروبار زندگی بھی متاثر ہوا ہو گا، جب کہ پولیس ان علاقوں میں صرف دن کی روشنی میں گشت کرنے تک محدود ہو گئی ہیں۔‘
حکومتی مؤقف
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’امن امان خیبر پختون خوا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس ضمن میں پولیس کی استعداد کار بڑھانے کے لیے سات ارب روپے کا منصوبہ منظور کیا گیا ہے۔ کچھ علاقوں میں پولیس کے لیے بکتر بند گاڑیاں بھی خریدی گئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امن امان کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت اپنے وسائل کے مطابق ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔ تاہم اس ضمن میں وفاقی حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جنوبی اضلاع اور ضم اضلاع بارڈر ایریاز ہیں اور بارڈر کا انتظام وانصرام وفاقی اداروں کے پاس ہوتا ہے۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’وفاقی ادارے بارڈر پر اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نہیں نبھا رہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی خارجہ پالیسیوں میں بھی بے پناہ نقائص ہے۔ افغانستان کے ساتھ خارجہ امور کے حوالے سے وفاقی حکومت وہ کردار نہیں نبھارہی ہے جو اسے نبھانا چاہیے۔‘
کچھ عرصہ پہلے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت علی یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ صوبے میں دہشت گردی سرحد پار سے ہو رہی ہے اور وفاقی حکومت اس کا الزام صوبائی حکومت پر ڈال رہی ہے۔
شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا تھا کہ ’ہم سے ہماری آئینی حکومت چھینی گئی اور ہم ملک میں آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘