24 جون 2000 کو شام کی اسمبلی نے آئین میں فوری تبدیلی کی، جس میں صدر بننے کے لیے قانونی عمر 40 سال تھی۔
اس عمل میں طنز اور آنے والے دور کی طرف اشارہ تھا کیوںکہ صدر بننے کے لیے عمر کی حد 34 سال کر دی گئی تاکہ واحد امیدوار بشار الاسد صدر بن سکیں جو اپنے والد اور سابق صدر حافظ الاسد کی جگہ لینے کے لیے نامزد کیے گئے تھے۔
پھر انہیں ’منتخب‘ کرلیا گیا۔
یہ عمل ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں مکمل ہوا۔
بشار الاسد کا عروج حیران کن تھا، خاص طور پر اپنے بھائی باسل کی موت کے بعد، جو بیمار والد کی جانشینی کے لیے متوقع امیدوار تھے۔ وہ پہلے عرب جمہوری صدر بنے۔ وہ ملک کے اعلیٰ منصب تک وراثت کے ذریعے پہنچے۔
یہ اس ملک کا حال تھا جہاں پہلی فوجی بغاوت کے بعد جاری ہونے والے بیان میں جمہوریت عوامی اور ذاتی آزادیوں کے تحفظ، اور عرب بغاوتوں کے پسندیدہ نعرے ’غصب شدہ زمینوں کی آزادی‘ کی بات کی گئی تھی۔
جیسا کہ توقع تھی بشارالاسد کو اسمبلی کے ارکان کی مکمل حمایت حاصل ہوئی۔
یہ واضح اشارہ تھا کہ انتظامی امور کا انداز وہی رہے گا جو حافظ الاسد کے دور میں تھا، جو 12 نومبر 1970 کو اپنے تمام ساتھیوں کے خلاف بغاوت کے بعد اقتدار میں آئے۔
بشارالاسد اپنے والد کے منفرد حکمرانی کے انداز، جو آمرانہ ہونے کے ساتھ ساتھ چالاکی پر مبنی تھا، کو اپنانے میں ناکام رہے۔
ان کی صلاحیت عالمی سطح پر حمایت کے نکات کو پڑھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے میں بھی نظر نہیں آئی۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ توقعات جو خاص طور پر مغربی دارالحکومتوں میں کی جا رہی تھیں پوری نہیں ہوئیں۔
یہ توقعات ان داخلی پالیسیوں میں تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی تھیں، جنہیں حقیقت میں سکیورٹی ادارے طے اور نافذ کرتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ حکمران خاندان اور ان کے حمایتیوں کی دولت میں اضافہ ہوا، اور انہوں نے ملک کے تمام وسائل کو قانونی چینلز سے ہٹ کر قابو کر لیا۔ یہاں تک کہ منشیات کی تیاری، تجارت، اور تقسیم کی نگرانی سے متعلق کہانیاں بھی پھیل گئیں۔
سب دیکھ رہے تھے کہ آنکھوں کے ڈاکٹر بشارالاسد اپنے والد کے چھوڑے ہوئے پیچیدہ مسائل سے کیسے نمٹیں گے۔
لبنان ان مسائل کی فہرست میں سب سے اوپر تھا، ساتھ ہی ایران کے ساتھ تعلقات بھی۔ لیکن وہ جبر اور خوف پھیلانے والے سکیورٹی اداروں کے اثر کے زیر اثر آ گئے کیوں کہ انہی اداروں نے انہیں اعلیٰ مقام تک پہنچنے اور اس پر برقرار رہنے کی ضمانت دی تھی۔
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ پر امید لوگوں کے دل میں مایوسی نے جگہ بنانا شروع کر دی اور ایک کے بعد ایک غلطی اور گناہ کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاست کے تجربے کی کمی نے ایک انتہائی پیچیدہ اور حساس ملک کی حکمرانی میں ان حماقتوں کو جنم دیا، جو درحقیقت شامی عوام کے خلاف جرائم تھے۔
بشارالاسد نے سوچا کہ ایرانی اور روسی مدد ان کے اقتدار کے تحفظ کے لیے کافی ہے، اور ان کے خاندان کی حکمرانی کو وراثتی نظام میں تبدیل کرنے کو یقینی بنائے گی جو ’عوام کی حکمرانی‘ کے نعروں کے برخلاف ہے، جیسا کہ عرب جمہوری ریاستوں کی بغاوتوں کے لٹریچر میں دہرایا جاتا تھا جو عوام کو حقیقت سے دور الفاظ کے ذریعے مشغول کرتے تھے۔
اسد خاندان کے نظام کی ناکامی سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ عوامی اطمینان ہی ممالک کے استحکام کی واحد ضمانت ہے اور بیرونی حمایت پر ضرورت سے زیادہ انحصار، چاہے وہ فوجی ہو، مالی ہو یا سیاسی، شہریوں کی حکمرانوں کے بارے میں قبولیت اور یقین دہانی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
ایک اور اہم سبق یہ ہے کہ بیرونی طاقتیں داخلی ہم آہنگی کو فروغ نہیں دیتیں اور قومی حکومتوں کے اختیار کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسے فیصلے اور اقدامات کرتی ہیں جو شہریوں کے مفاد میں نہیں ہوتے۔
بشار الاسد کی حکمرانی پر رائے قائم کرنا مشکل نہیں کیوں کہ ہر مبصر جانتا تھا کہ اس عرب ملک کو عوامی مفادات اور حقوق کو پس پشت ڈال کر چلایا جا رہا تھا۔
ایران ’محورِ مزاحمت‘ کے نام پر شام کی خارجہ پالیسی پر حاوی رہا جس میں حزب اللہ سب سے نمایاں کردار ادا کر رہی تھی۔
کرپشن اور عوامی غصے نے شامی حکومت کی طاقت کو کمزور کر دیا اور اس نے یہ محسوس نہیں کیا کہ وہ ’پارٹی‘ جس نے ماضی میں اسے سہارا دیا، اسرائیلی حملوں کے بعد اپنے فوجی کردار سے پیچھے ہٹ چکی ہے اور دوبارہ مدد کے لیے نہیں آئے گی۔
ایران اب خطے میں اپنے اتحادیوں کی مالی مدد جاری رکھنے کے قابل نہیں رہا اور روس اپنی طویل یوکرین جنگ میں الجھا ہوا ہے۔
جہاں تک ’محورِ مزاحمت‘ میں شامل نئے رکن یعنی یمن کے حوثیوں کا تعلق ہے، وہ اتنے کمزور ہیں کہ مؤثر مدد فراہم کرنے سے قاصر ہیں اور صرف سطحی بیانات دینے تک محدود ہیں۔
وہ خود ایسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں جہاں عوام ٹیکسوں، آزادیوں پر پابندی اور زندگی کی بنیادی ضروریات کی قلت سے نالاں ہیں۔
ان کی فرقہ واریت مزید مسائل پیدا کر رہی ہے جو ان کے لیے عوامی غصے اور نفرت کا باعث بنے گی۔ ایران بھی اب ان کی ماضی جیسی مدد کرنے کے قابل نہیں رہا اور انہیں عوام کے غضب کے سامنے تنہا چھوڑ دے گا۔
عرب جمہوری ریاستیں بدامنی اور کرپشن کی شکار ہیں۔ اس کا سبب صرف حکومتیں نہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثر حکمران اقتدار کو ہر قیمت پر برقرار رکھنے کے جنون میں مبتلا ہیں، یہ بھولتے ہوئے کہ جمہوریت کی بنیاد پرامن اقتدار کی منتقلی ہے، نہ کہ ذاتی مفادات، خاندان یا قبیلے کی خوشنودی یا دولت جمع کرنے کا ذریعہ۔
بشار الاسد ہر عرب جمہوری حکمران کے لیے ایک سبق ہیں کہ جو حکمران آئینی اصولوں کو نظرانداز کر کے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ بالآخر جلاوطنی یا تباہی کا شکار ہو جاتا ہے، بشرطیکہ وہ اپنے مخالفین کے ہاتھوں مارے جانے سے پہلے فرار ہونے میں کامیاب ہو جائے۔
بشار الاسد رسوائی کے ساتھ اپنے خاندان سمیت ملک چھوڑ گئے۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایک برباد وراثت چھوڑی جس میں ظلم، دہشت گردی اور بدعنوانی شامل ہیں۔
انہوں نے ایک تباہ حال اور بیمار ملک چھوڑا جو ان کی حکمرانی کے نقصانات کو ٹھیک کرنے کے لیے دہائیوں کی محنت کا محتاج ہو گا کیوں کہ عوام کے مفادات ہمیشہ ان کی ترجیحات میں سب سے نیچے رہے۔
جہاں تک شام کے مستقبل کا سوال ہے اسے صرف نئی حکومت کے بیانات کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا کیوں کہ اس کی تاریخ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ہمیں انتظار کرنا ہو گا تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ وہ اہم قومی مسائل، خاص طور پر مقبوضہ علاقوں کے بارے میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔
سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ نئی حکومت کے دعوے، جیسے اچھی حکمرانی، آزادیوں کا تحفظ، قانون کی بالادستی، اور مخالفین کے ساتھ برتاؤ، حقیقت پر کتنا پورا اترتے ہیں۔
یہ تحریر پہلے انڈپینڈنٹ عریبیہ میں شائع ہوئی تھی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔