سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی اپنی حکومت کے خاتمے کو درست قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف 1997 میں دائر نظر ثانی درخواست کی 28 برس بعد بدھ کو سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’اس مقدمے کا اثر بہت سے زیر التوا مقدمات پر بھی ہو گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ’یہ معاملہ چیف جسٹس کے چیمبر سے شروع ہوا، چیف جسٹس کہاں جائے گا؟‘
29 جنوری 1997 کو سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں اُس وقت کے صدر سردار فاروق خان لغاری کے ہاتھوں پانچ نومبر 1996 کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی بحیثیت چیف ایگزیکٹیو برطرفی اور وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کی تحلیل کو درست قرار دیا تھا، جس کے خلاف پٹیشنرز بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی نے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی، جو عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت مقدمات کی زیادتی (بیک لاگ) کے باعث 28 سال تک نہ سنی جا سکی۔
بدھ کو اس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
محمد علی مظہر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن سے استفسار کیا: ’کیا فون ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانون سازی ہوئی؟‘ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’2013 سے قانون موجود ہے، قانون کے مطابق آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلی جنس) اور آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) نوٹیفائیڈ ہیں، قانون میں فون ٹیپنگ کا طریقہ کار ہے، عدالتی نگرانی بھی قانون میں ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’قانون کے مطابق تو فون ٹیپنگ کے لیے صرف جج اجازت دے سکتا ہے۔ کیا کسی جج کو اس مقصد کے لیے نوٹیفائی کیا گیا ہے؟ قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا۔‘
جبکہ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ ’فون ٹیپنگ کا قانون مبہم ہے۔‘
بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ’ہمیں رپورٹس یا قانون میں دلچسپی نہیں، نتائج چاہیے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی نے جواب دیا کہ ’جج کی نامزدگی کے بارے میں مجھے علم نہیں۔‘
ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے عدالت کو بتایا کہ ’اس مقدمے میں درخواست گزار میجر شبر سے رابطہ نہیں ہو رہا جبکہ میجر شبر کے وکیل بھی گذشتہ سال فوت ہو چکے۔‘
بعدازاں عدالت نے کیس پر ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کا معاملہ
سپریم کورٹ آف پاکستان کی رواں ماہ کے شروع میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد نومبر 2024 کے شروع میں 60 ہزار تھی، جو دسمبر میں کم ہو کر 50487 رہ گئی تھی۔
بڑی تعداد میں مقدمات کی موجودگی کے باعث عدالت عظمیٰ میں کیسز کی اکثریت التوا کا شکار ہوتی رہتی ہے، جب کہ آئینی مسائل سے متعلق درخواستوں پر طویل سماعتیں دوسرے سائلین کے لیے کوفت کے علاوہ وقت اور وسائل کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں۔
اس سال 21 کتوبر کو پاکستان کی پارلیمان نے 1973 کے آئین میں 26 ویں ترمیم کی منظوری دی، جس میں دوسری چیزوں کے علاوہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئینی بینچ کی تشکیل پر بھی اتفاق کیا گیا۔
اسی تناظر میں پانچ نومبر کو جوڈیشل کمیشن نے دو ماہ کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کے قیام کی منظوری دی تھی، جس نے 14 نومبر سے مقدمات کی سماعت شروع کی۔
آئینی بینچ کے قیام کا مقصد سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی آئین سے متعلق درخواستوں کو الگ سے سننا اور نمٹانا ہے، جس سے دیگر سائلین کے مقدمات کی سماعت اور فیصلوں میں سرعت پیدا ہو گی۔
آئینی بینچ کے قیام کے علاوہ مقدمات کا بیک لاگ جلد از جلد نمٹانے کی غرض سے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔
بے نظیر بھٹو کی درخواست پر فیصلہ
سابق صدر سردار فاروق خان لغاری نے اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت پردوسرے الزامات کے علاوہ بے نظیر بھٹو کے حکم کے تحت ججوں، سیاسی رہنماؤں اور فوجی اور سول حکام کے ٹیلیفون کو انٹیلی جنس بیورو کے ذریعے غیر آئینی طریقے سے ٹیپ کرنے کا الزام لگایا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم درخواست گزار نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے خود فون ٹیپنگ کا شکار ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
سپریم کورٹ بینچ کے چھ ججوں نے صدارتی حکم کو برقرار رکھا، جب کہ ایک رکن نے قومی اسمبلی، وزیراعظم (درخواست گزار) اور ان کی کابینہ کی بحالی کی حمایت کی۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 14 کے ذریعے ضمانت دی گئی رازداری کے حق کے تناظر میں ٹیلی فون ٹیپنگ اور چھپنے کے استعمال کی درستگی کا تعین کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کی ضمانت دیے گئے بنیادی حقوق کو شامل کرنے کے لیے آئین کو آزادانہ اور فائدہ مند انداز میں پڑھا جانا چاہیے اور آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ’انسان کا وقار‘ اور ’گھر کی رازداری‘ ناقابلِ تسخیر ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا کہ ’آرٹیکل 14 کے تحت فرد کی رازداری صرف گھر یا جسمانی حدود تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے عوامی مقامات تک بھی بڑھایا گیا ہے۔
’درخواست گزار کی حکومت کی طرف سے اختیار کردہ فون ٹیپ کرنے نے آرٹیکل 14 کی ضمانت دی گئی رازداری کے حق کی خلاف ورزی کی۔‘
فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ ’عدلیہ کی خودمختاری اہم ہے، اس لیے ججوں کی پرائیویسی کو یقینی بنانا ضروری تھا کیونکہ اس سے ان کی اپنے فرائض کی انجام دہی کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچے گا۔‘
عدالت نے آئین کے آرٹیکل 9 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’فون ٹیپ کرنے کی تکنیک نہ صرف رازداری کے حق زندگی اور آزادی کے حق کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے اور ججوں کے فرائض کی موثر ادائیگی کے لیے رازداری ضروری ہے، جس میں نجی طور پر معاملات کی سماعت اور فیصلے کرنا شامل ہے۔‘
عدالت نے مزید لکھا کہ آئین کا آرٹیکل 19، جو آزادی اظہار اور اظہار رائے کا تحفظ کرتا ہے، کے تحت بھی فون ٹیپ کرنا غلط ہے کیونکہ اس سے شہریوں کی آزادی کے ساتھ بغیر کسی پابندی کے اپنی بات کہنے اور اظہار خیال کرنے کی آزادی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
’اس طرح، رازداری کے حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، آرٹیکل 19 کے ذریعے بیان کردہ آزادی اظہار کے حق کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔‘
فون ٹیپ کرنے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے عدالت نے کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے، جو بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ان تکنیکوں کو مجاز اور/ یا ریگولیٹ کرتا ہو، لہٰذا قانون کی عدم موجودگی میں اگر اس طرح کے کاموں کو انجام دینے کی ضرورت ہو تو عدالت سے یا اس کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی سے اجازت لینا پڑے گی۔ عدالت نے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور چھپنے کے عمل کو غیر آئینی اور آئین کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔