نئی دہلی ریلوے سٹیشن پر واقع 300 سالہ مسجد کے انہدام کا خدشہ

ریلوے حکام کی جانب سے دہلی ہائی کورٹ کو فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق ’2 مسجد اور 6 مندر احاطے میں موجود ہیں، جنہیں ہٹانا پڑے گا۔‘

انڈیا میں واقع نئی دہلی ریلوے سٹیشن کی از سر نو تعمیر کے منصوبہ میں سٹیشن کے احاطہ میں واقع دو مساجد پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے، جس میں سے ایک غریب شاہ مسجد ہے جو پلیٹ فارم تین پر واقع ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق سٹیشن کے از سر نو تعمیر کا کام 2024 کے آخر تک شروع ہونے توقع ہے۔

اس منصوبے کا مقصد ہے نئی دہلی کو ایک جدید ریلوے سٹیشن فراہم کرنا تاکہ نئی دہلی ریلوے سٹیشن ایک عالمی معیار کی ریلوے سہولت کے طور پر سامنے آسکے۔

اس جدید ریلوے سٹیشن کی تعمیر کے منصوبہ میں ایک اہم مسجد سامنے آ رہی ہے۔

ریلوے ذرائع کے مطابق: ’اس منصوبہ کے تحت سٹیشن کے احاطے میں جو ’غیر متعلقہ تعمیرات‘ ہیں انہیں ہٹا دیا جائے گا۔

ریلوے حکام کی جانب سے دہلی ہائی کورٹ کو فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق ’2 مسجد اور 6 مندر احاطے میں موجود ہیں، جنہیں ہٹانا پڑے گا۔‘

مسجد کے امام و خطیب مولانا محمد اعظم نے خدشات کی تصدیق کی اور بتایا کہ ’نئی دہلی ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم تین پر جو مسجد واقع ہے اس کی تاریخ 300 سال پر محیط ہے۔

’اس کے علاوہ ایک اور مسجد پلیٹ فارم سے الگ ہے۔ باقی جن مندروں کی بات کی جا رہی ہے، وہ بہت چھوٹے چھوٹے ہیں، درخت اور چھوٹے ڈبوں پر ہے۔ ہمیں اب تک جو اطلاعات آئی ہیں، اس کے مطابق حکومت نے مسجد کو شہید کرنے کی ہری جھنڈی دے دی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ریلوے نے مسجد توڑنے میں تھوڑی دیر کی تو سیو انڈیا فاؤنڈیشن نامی ’شدت پسند ہندو تنظیم‘ نے مسجد کے انہدام میں جلدی کرنے کے لیے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

سیو انڈیا فاونڈیشن ان مسجدوں کو غیر قانونی قرار دے کر حکومت پر مسجد توڑنے کا دباو ڈال رہی ہے۔

مولانا اعظم نے بتایا کہ ’جس مسجد کو توڑنے کی بات ہورہی ہے اس کا نام مسجد غریب شاہ ہے، یہ ایک غریب شاہ درویش تھے، انہوں نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ تقریباً 370 سال قبل جب مسجد بنی اس وقت پلیٹ فارم یا سٹیشن نہیں تھا۔ جنہوں نے بنائی تھی ان کا برابر میں مزار تھا۔ انہوں نے اپنی زمین میں اس مسجد کو تعمیر کیا تھا۔ برابر میں ایک کنواں ہوا کرتا تھا ادھر وضو کیا کرتے تھے لوگ۔ سامنے، پلیٹ فارم نمبر پانچ تک اس کا حوض تھا، مدرسہ چلتا تھا۔

’یہ حوض اور مدرسہ کب ختم ہوئے اس کا تو مجھے معلوم نہیں ہے، میرے خیال میں شاید، جب سٹیشن بنا تو یہ ختم ہو گئے، اس سے پہلے یہ موجود تھے جب گاؤں تھا۔ اور گاؤں والوں نے ہی یہ سٹیشن بنوایا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’پہلے یہاں چھوٹا سا سٹیشن بنا تھا، مسافر ٹرین وغیرہ رکا کرتی تھیں۔ ای ایم یو وغیرہ، بڑا سٹیشن نہیں تھا کوئی ایکسپریس ٹرین نہیں رکا کرتی تھیں یہاں پر۔ تو بڑھتے بڑھتے اس کو پھر، سٹیشن کا دائرہ بڑھتا چلا گیا اس گاوں کو ہٹا دیا ان کو کہیں معاوضہ دیا، زمین دوسری جگہ دے کر اس گاؤں کو بسایا گیا، شاید کہ مہرولی میں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کچھ لوگ بتاتے ہیں یہ پہاڑ گنج گاؤں تھا، کچھ لوگ بتاتے ہیں کندراولی گاؤں تھا، جب اسٹیشن بن گیا، 100 سال پہلے تقریباً، تو سن 1947 میں بٹوارا ہوا، انڈیا پاکستان الگ الگ ہو گئے۔ تو کوئی نماز پڑھنے والا یہاں نہیں تھا، تو غیر آباد ہو گئی تھی یہ مسجد۔ کنکلے ونکلے پڑے رہتے تھے اس میں، ریلوے کا سامان بھی پڑا رہتا تھا تھوڑا بہت کُوڑا وغیرہ۔

’پھر 1972 میں لوگوں نے کوشش کر کے، اس میں نماز ہونی چاہیے، اس کو دوبارہ سے آباد کیا، آباد تو پہلے سے ہی تھی بیچ میں وقفہ ہو گیا تھا، نماز پڑھنے والا کوئی تھا نہیں۔ اب جو نماز پڑھتے ہیں لوگ، مسافر، ریلوے کے قلی اور ریلوے کے ملازمین نماز پڑھتے ہیں اس میں۔‘

امام محمد اعظم نے مسجد کے غیر قانونی ہونے کے دعوؤں کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ’ اس مسجد کے سارے کاغذات موجود ہیں، گزٹ نوٹیفیکیشن ہے وقف بورڈ میں سارے کاغذات ہیں۔ جو لوگ افواہ پھیلارہے ہیں ان کی نیت اچھی نہیں ہے۔ یہ مسجد بلکل اپنی زمین پر بنائی گئی تھی، وقف جو ہوتی ہے زمین وہ کوئی ایک مسلمان مسجد کے لیے، مدرسے کے لیے وقف کرتا ہے عوام کے نام، تاکہ عوام اس سے فائدہ اٹھا سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہاں لوگ نماز ادا کر لیتے ہیں وقت پر اور ٹرین پکڑ لیتے ہیں۔ قُلی ہیں، ریلوے کے ملازمین ہیں، مسافر ہیں۔ ٹکٹ ہوتے ہیں ان کے پاس، وہ نماز ادا کرتے ہیں۔‘

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر یہاں ایک ماڈل سٹیشن بنا رہے ہیں تو اسی طرح مسجد کو بھی توڑنے کے بغیر اس کو اچھی ماڈل مسجد بنائیں، خوبصورت مسجد بنائیں جو ریلوے سٹیشن کے اعتبار سے اچھی لگے۔

دہلی وقف بورڈ کے سابق قانونی صلاح کار ایڈوکیٹ وجیہ الدین نے بتایا کہ ’قانون موجود ہے کہ حکومت کسی بھی جائیداد کو حاصل کر سکتی ہے، چاہے وہ مذہبی ہو، چاہے وہ نجی ہو یا کوئی اور۔ جو ’ایمیننٹ ڈومین‘ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی جائیداد کو حکومت حاصل کر سکتی ہے، مگر حاصل کرنے کے لیے بھی جو عمل ہے وہ اپنانا پڑے گا۔ لیکن یہ کہہ کر کے کرنا کہ یہ غیر قانونی قبضہ ہے، غیر قانونی تعمیر ہے، یہ نہ صرف ریکارڈ کے خلاف ہے بلکہ کسی بھی مسجد کے بارے میں بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دینا کہ یہ غیر قانونی تعمیر ہے، وہ حوصلہ شکنی بھی ہے اور سماج کے جو مختلف طبقات ہیں، ان میں آپس میں تھوڑا سا اختلاف بھی پیدا کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب یہ ریلوے اسٹیشن اصل میں بنایا جا رہا تھا، تو بھی اس مسجد کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ حکومت کو بھی اس وجہ سے اس پر غور دینا چاہیے کہ جب ریلوے اسٹیشن پہلی مرتبہ بنایا جا رہا تھا، تو مسجد پہلے سے ہی موجود تھی۔ اگر اس وقت مسجد کو ہٹانا ضروری نہیں تھا، تو اب کیا ضرورت ہے اسے ہٹانے کی، اسے ضم کیوں نہیں کر سکتے؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا