سارہ کے بہن بھائیوں کے لیے پاکستان ’سب سے محفوظ‘: دادا

برطانیہ میں قتل ہونے والی بچی سارہ شریف کے دادا نے سارہ کے بہن بھائیوں کے لیے پاکستان کو ’سب سے محفوظ جگہ‘ قرار دیتے انہیں یہاں رکھنے کی قانونی لڑائی لڑنے کا عزم کیا۔

سارہ شریف کی لاش 10 اگست کو برطانیہ کی کاؤنٹی سرے کے علاقے ووکنگ میں ایک گھر سے برآمد ہوئی تھی (سرے پولیس ویب سائٹ)

برطانیہ میں قتل ہونے والی بچی سارہ شریف کے دادا نے سارہ کے بہن بھائیوں کے لیے پاکستان کو ’سب سے محفوظ جگہ‘ قرار دیتے انہیں یہاں رکھنے کی قانونی لڑائی لڑنے کا عزم کیا ہے۔

سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق قتل ہونے والے 10 سالہ بچی کے دادا محمد شریف نے کہا کہ وہ پاکستان کی ہائی کورٹ میں سارہ کے پانچ بہن بھائیوں کو برطانیہ واپس جانے سے روکنے کے لیے اپیل کریں گے۔

شریف خاندان کی جانب سے یہ قدم اس وقت سامنے آیا ہے جب ووکنگ سرے کاؤنٹی (سارہ کے رہائشی علاقے) سے تعلق رکھنے والے لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمان ول فورسٹر نے کہا کہ اتوار کی شام سارہ کی یاد میں سینکڑوں لوگوں نے ایک جذباتی تقریب میں شرکت کی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا: ’بہت سے لوگ ان کی موت سے دل شکستہ ہیں۔‘

سارہ کے بہن بھائی پاکستانی شہر جہلم میں رہتے ہیں اور انہیں برطانیہ واپس لانے کی کوششیں ابھی بھی جاری ہیں۔ ان کی شناخت عدالتی حکم سے ظاہر نہیں کی جا سکتیں۔

ان بچوں کو سارہ کے والد عرفان شریف، سارہ کی سوتیلی ماں بینش بتول اور ان کے چچا فیصل ملک گذشتہ سال نو اگست کو پاکستان لے گئے تھے، اس سے ایک دن قبل سارہ کی لاش ووکنگ سرے میں ان کے خاندانی گھر سے ملی تھی۔

ہاکستان پہنچنے پر ان بچوں کو ان کے دادا کی دیکھ بھال میں چھوڑ دیا گیا تھا لیکن عرفان شریف، بینش بتول اور فیصل ملک کو تلاش کرنے کی کوششوں کے دوران پاکستانی پولیس کی طرف سے بازیاب کیے جانے کے بعد انہیں ریاستی نگہداشت میں لے لیا گیا تھا۔ بچے اب اپنے دادا کی دیکھ بھال میں واپس آ گئے ہیں۔

محمد شریف نے سنڈے ٹائمز کو بتایا: ’لاہور ہائی کورٹ میں بچوں کی تحویل سے متعلق قانونی کارروائی جاری ہے۔ وہ ایک نامور سکول میں داخل ہیں اور ہم ذاتی طور پر ان کے سکول آنے جانے میں ان کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میں ان کا سرپرست ہوں اور یہ ان کے رہنے کے لیے سب سے محفوظ جگہ ہے، ان کا مجھ سے تعلق ہے اور وہ مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم یہ مقدمہ جیتیں گے۔‘

69 سالہ محمد شریف کے بیٹے عرفان اور ان کی دوسری بیوی بینش بتول کو گذشتہ ہفتے اولڈ بیلی میں سارہ کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ فیصل ملک کو سارہ کی موت کا سبب بننے یا اسے نہ روکنے کا قصوروار پایا گیا۔

ستمبر میں جسٹس ہیڈن نے سارہ کے پانچ بہن بھائیوں کو عدالتی سرپرستی میں دیا تھا یعنی انہیں برطانیہ واپس لانا ضروری ہے، کیونکہ ایسے بچوں کو انگلینڈ اور ویلز سے عدالت کی منظوری کے بغیر نکالا نہیں جا سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرے کاؤنٹی کونسل نے ان بچوں کو برطانیہ واپس لانے کی کوششیں شروع کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی ہے۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا پاکستان میں کوئی عدالت ان کی واپسی کی اجازت دے گی اور اگر دے کی تو ایسا کب ہوگا۔

سنڈے ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے گذشتہ ہفتے حوالگی کیس کی تازہ ترین سماعت جنوری کے وسط تک ملتوی کر دی تھی جب تک بچے اپنے دادا کی دیکھ بھال میں رہیں گے۔

سرے کاؤنٹی کونسل کے ایک ترجمان نے اس حوالے سے بتایا: ’ہم اس انتہائی پیچیدہ صورت حال میں اس حساس اور احتیاط سے تمام متعلقہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

ترجمان نے مزید کہا: ’ہماری اولین ترجیح بچوں کی فلاح و بہبود ہے اور ہم درخواست کرتے ہیں کہ ان کی رازداری کا احترام کیا جائے۔‘

برطانوی عدالت سارہ شریف قتل کیس میں عرفان شریف، بینش بتول اور فیصل ملک کو منگل کو سزا سنائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان