پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج ہر تیسرا شہری ذاتی گاڑی یا موٹر سائیکل کا مالک تو ہے لیکن سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی پاسداری نا ہونے کے برابر ہے، جو حادثات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کراچی ملک کا معاشی حب ہے اور یہاں ہر طرح کا ٹریفک ہے، جس کی وجہ سے حادثات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر 42 لاکھ موٹر سائیکل چل رہے ہیں، جو شہر میں موجود مجموعی گاڑیوں کا 65 فیصد ہے۔
ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز چیمہ کا کہنا تھا کہ ’اکثر موٹر سائیکل اور موٹر سوار چھوٹے موٹے ٹریفک قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے، جن میں ون وے کی خلاف ورزی اور اپنی سائڈ پر گاڑی نہ چلانا اب معمول کی باتیں سمجھی جانے لگی ہیں۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پیدل چلنے والے شہری سڑک عبور کرنے کے لیے بنائی گئی پلوں کو استعمال کرنے کے بجائے چلتی ٹریفک کے درمیان میں روڈ کراس کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شہر کا انفرسٹرکچر یعنی ٹوٹی سڑکیں کھلے گٹر سٹریٹ لائٹس کا نہ ہونا بھی شہر میں روڈ ایکسیڈنٹس کا باعث بن رہا ہے۔‘
روڈ ایکسیڈنٹس پر ریاست کے اخراجات
ڈائریکٹر جناح ہسپتال شاہد رسول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کراچی میں روزانہ 250 افراد سڑک پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں زخمی ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ 30 فیصد متاثرین معمولی زخمی اور 45 فیصد درمیانے درجے کے زخموں (جیسے ہڈی کا ٹوٹنا وغیرہ) کا شکار ہوتے ہیں، جب کہ سنجیدہ حالت یا میجر انجریز (جیسے سر کی چوٹ) کے ساتھ لائے گئے افراد کی تعداد 30 فیصد دیکھنے میں آئی ہے۔
شاہد رسول کے مطابق شہر کسی تہوار یا بڑے دن کی صورت میں ٹریفک حادثات کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے اور ہسپتال لائے جانے والے زخمیوں کی تعداد 1500 تک پہنچ جاتی ہے۔
شدید زخمیوں کو 15 روز سے ایک مہینے تک ہسپتال میں رکھا جاتا ہے، جس دوران انہیں آئی سی یو کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے، جب کہ سرجری کی نوبت بھی آتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ روڈ ایکسیڈنٹس کی زد میں آنے والے شہریوں پر ریاست سرکاری خزانے سے پیسے خرچ کرتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ان اخراجات کی مد میں ہر مہینے پانچ کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں، جو سالانہ 90 کروڑ روپے بنتے ہیں۔