افغان طالبان کی وزارت خارجہ نے پیر کو سعودی عرب کے کابل میں اپنی سفارتی سرگرمیاں بحال کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
سعودی عرب نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کابل سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کے تین سال بعد افغانستان میں اپنے سفارت خانے کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان ضیا احمد نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم سفارتی سرگرمیوں کے دوبارہ شروع ہونے سے سعودی عرب اور افغانستان کے درمیان تعلقات اور تعاون کو مضبوط بنانے کے امکان کے بارے میں پر امید ہیں۔‘
ترجمان نے مزید کہا کہ ’اس پیش رفت کے بعد ہم سعودی عرب میں مقیم افغان باشندوں کے مسائل کو بھی حل کر سکیں گے۔‘
سعودی عرب نے کابل میں سفارتی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کیا تھا۔
پوسٹ میں کہا گیا کہ ’برادر افغان عوام کو تمام خدمات فراہم کرنے کے لیے سعودی عرب کی حکومت کی خواہش کی بنیاد پر 22 دسمبر سے کابل میں سعودی مشن کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘
تاہم سعودی وزارت خارجہ نے کابل میں سعودی سفارتی نمائندگی کی سطح کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریاض نے 15 اگست، 2021 کو کہا تھا کہ اس نے اپنے سفارت کاروں کو افغان دارالحکومت سے واپس بلا لیا ہے کیونکہ ملک سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی اقتدار میں واپسی سے ’غیر مستحکم صورت حال‘ پیدا ہوئی ہے۔
نومبر 2021 میں سعودی عرب نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں قونصلر خدمات دوبارہ شروع کر رہا ہے۔
ریاض اپنی ’کے ایس ریلیف‘ فنڈ کے ذریعے افغانستان میں انسانی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔
دوسری جانب طالبان کی حکومت کو اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔
سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ دنیا کا تیسرا ملک تھا جس نے 1996 میں برسراقتدار آنے والی طالبان کی پہلی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
2001 کے امریکی حملے میں طالبان کی پہلی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔