خبریں ڈھونڈنا ایک اچھے صحافی کی پہچان ہوتی ہے۔ ایک ہی طرح کی خبریں کرنا کیونکہ ان کی مانگ ہے، کی وجہ سے اچھے اچھے صحافی بھی اس دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور اپنے ارد گرد خبریں دیکھ نہیں پاتے۔
کچھ ایسا ہی میرے خیال میں خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کے صحافیوں کے ساتھ ہو رہا ہے، جن سے چند ہفتوں پہلے میری ملاقات ہوئی۔
ان سے بات چیت کر کے ایسا لگا جیسے وہ ایک دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ ان کی اس دلدل میں پھنسنے کی وجہ کیا ہے؟
ایک تو یہ ہے کہ ان کو صرف شدت پسندی کے حوالے سے ہی نیوز رپورٹنگ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ کہاں دھماکہ ہوا، کتنے شدت پسند مارے گئے، کہاں شدت پسندی زیادہ ہے اور کہاں کم وغیرہ وغیرہ۔
ان کو کسی میڈیا ادارے نے کہا ہی نہیں کہ شدت پسندی سے باہر نکلو اور اپنے ارد گرد خبروں پر نظر ڈالو۔
ان صحافیوں سے جب بات ہوئی تو ان سے میں نے پوچھا کہ وہ کس قسم کی خبریں زیادہ کرتے ہیں، تو جواب ملا کہ میڈیا ادارے ان سے شدت پسندی کے حوالے سے ہی خبریں مانگتے ہیں۔
آخر کیوں؟ کیا نئے ضم شدہ اضلاع میں شدت پسندی کے علاوہ کوئی اور مسائل نہیں جن کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے؟
درست ہے کہ شدت پسندی نے اس علاقے میں گذشتہ 45 سالوں میں جو تباہ کاریاں کی ہیں ان کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔
لیکن اس کے ساتھ جو مسائل اور دشواریاں ہیں ان کے بارے میں آواز کیوں نہ اٹھائی جائے؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی پیشہ وارانہ صلاحیت بڑھانے کے لیے مختلف تنظیمیں تربیت کا انعقاد کرتی ہیں۔
اسلام آباد یا پھر پشاور بلایا جاتا ہے، ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا ہے، دو یا تین روز کے لیے بڑے بڑے صحافی آ کر ان کو صحافیانہ اصولوں پر لیکچر دیتے ہیں، ورک شاپ کا فیڈ بیک لیا جاتا ہے اور روانہ کر دیا جاتا ہے۔
کیا کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسی کتنی ورک شاپس میں شرکت کر چکے ہیں اور اس کا کیا فائدہ ہوا؟ ان صحافیوں کو ورک شاپس کی نہیں بلکہ سرپرستی (مینٹورنگ) کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مینٹورنگ جو ان کا میڈیا ہاؤس خود کرے، مینٹورنگ جو اس میڈیا ہاؤس کے سینیئر صحافی ان کی کریں۔
اور وہ صحافی بھی کریں جو ان سے خبریں لیتے ہیں اور بین الاقوامی میڈیا یا ریسرچ اداروں کو رپورٹس پیش کرتے ہیں اور ان کا نام بھی نہیں دیتے۔
یہ وہی صحافی ہیں جو اب سوشل میڈیا کا رخ کرنے کا سوچ رہے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ آیا صرف شدت پسندی کے بارے میں خبروں سے سوشل میڈیا پیج یا چینل چل پائے گا یا نہیں۔
بہت سارے تو ایسے ہیں کہ ان سے جب سوشل میڈیا کی بات کریں تو ان کا سوال ہوتا ہے کہ یوٹیوب چینل کیسے بناتے ہیں اور جب انٹرنیٹ کی بندش رہے گی تو ان کا چینل یا پیج کیسے چل پائے گا۔
یہ صحافی خود اس دلدل میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور دیگر خبروں کے بارے میں پوچھیں بھی تو زیادہ تر خاموش رہتے ہیں۔
لیکن جب ان کو دیگر خبروں کے بارے میں بتایا جائے تو وہ خود اس بات کو مانتے ہیں کہ انہوں نے اس بارے میں نہیں سوچا۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔