پاکستان چھوڑنے کے خواہش مند نوجوانوں میں کمی کی وجہ کیا؟

فرانسیسی کمپنی اپسوس کے ایک حالیہ سروے میں 18 سے 24 سال کی عمر کے پاکستانی نوجوانوں کو شامل کیا گیا، جس میں سے صرف 26 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں اور 74 فیصد ملک میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔

سات مئی 2020 کو دبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پاکستانی شہری چیک اِن کاؤنٹر کا رخ کرتے ہوئے (اے ایف پی/کریم صاحب)

فرانسیسی مارکیٹنگ اور ریسرچ کمپنی اپسوس نے حال ہی میں پاکستان کے حوالے سے سروے کیا، جس کے مطابق صرف 26 فیصد نوجوان پاکستان چھوڑ کر باہر جانے کے خواہش مند ہیں جبکہ 2022 میں یہ تعداد 32 فیصد تھی۔  

سال کے آخر میں جاری اس سروے میں 18 سے 24 سال کی عمر کے پاکستانی نوجوانوں کو شامل کیا گیا، جس میں سے صرف 26 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ باہر جانا چاہتے ہیں اور 74 فیصد ملک میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔

سروے میں پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعدادوشمار بھی دیے گئے ہیں، جس میں رواں سال پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک جانے میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ اسی طرح ان 26 فیصد میں 32 فیصد مرد اور 21 فیصد خواتین بیرون ملک جانے کے خواہش مند تھے۔

اس سروے کے اعدادوشمار تو جاری کیے گئے ہیں لیکن مزید تفصیل فراہم نہیں کی گئی کہ سروے کے لیے تحقیق کا کون سا طریقہ کار استعمال کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ جن نوجوانوں کو سروے میں شامل کیا گیا ہے، ان کی تعلیم کتنی ہے اور ان کے خاندان کی معاشی حالات کیسے ہیں۔

سروے کے مطابق بیرون ملک جانے کے خواہش مند نوجوانوں میں سب سے زیادہ (46 فیصد) کا تعلق اسلام آباد جبکہ دوسرے نمبر پر 35 فیصد کا تعلق خیبر پختونخوا اور تیسرے نمبر پر پنجاب کا ہے، جہاں 27 فیصد نوجوان بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہیں۔

اس سے قبل اکتوبر 2022 میں اسی ادارے کے سروے میں 32 فیصد نوجوانوں نے ملک چھوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

سروے رپورٹ کے مطابق جو نوجوان بیرون ملک جانے کے خواہش مند ہیں، ان میں سب سے زیادہ (30 فیصد) سعودی عرب، دوسرے نمبر پر 20 فیصد متحدہ عرب امارات اور نو فیصد برطانیہ جانا چاہتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نوجوانوں کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جانے کے رجحان سے اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ پاکستانی نوجوان مغربی ممالک جانے کے خواہش مند ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس پاکستان کے معاشی حالات پر مختلف تحقیقی مقالے شائع کرتا ہے۔

اس ادارے نے نومبر 2022 میں ایک تفصیلی سروے رپورٹ جاری کی تھی جس میں عمر، جنس، تعلیمی قابلیت سمیت سروے میں حصہ لینے والوں کے معاشی حالات کے حوالے سے بھی پوچھا گیا تھا۔

اسی رپورٹ کے مطابق پاکستانی آبادی کے 37 فیصد ملک چھوڑ کر بیرون ممالک منتقلی کی خواہش رکھتے ہیں جس میں سب سے زیادہ (49 فیصد) 15 سے 24 سال کے نوجوان ہیں۔

گلگلت بلتستان کی 43.6 فیصد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی 41.5 فیصد آبادی ملک چھوڑنا چاہتی ہے۔

صوبوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ تناسب (42 فیصد) بلوچستان کا ہے، جن کے لوگ پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا ہے، جن کی 37.7 فیصد آبادی پاکستان چھوڑنا چاہتی ہے۔

سب سے کم تناسب (36.6) فیصد آبادی اسلام آباد کی ہے جو پاکستان چھوڑنے کے خواہش مند ہیں اور بیرون ملک منتقل ہونا چاہتے ہیں۔

’سعودی عرب اور دبئی میں پاکستانیوں کی سب سے زیادہ تعداد‘

سرکاری اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو پاکستان بیورو آف امیگریشن کے مطابق 1971 سے نومبر 2024 تک پاکستان کی بیرون ممالک مقیم مجموعی تعداد ایک کروڑ 39 لاکھ 87 ہزار سے زیادہ ہے۔

ان میں سب سے زیادہ تعداد سعودی عرب میں ہے جن کی تعداد 71 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر دبئی میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کی تعداد 43 لاکھ سے زیادہ ہے۔

تیسرے نمبر پر عمان ہے جہاں پاکستانیوں کی تعداد 10 لاکھ 59 ہزار سے زائد ہے اور اس کے بعد چوتھے نمبر پر قطر میں پاکستانی شہری موجود ہیں۔

کیا بیرون ملک جانے والوں میں واقعی کمی آئی ہے؟

اب جس طرح اپسوس کے سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانیوں کی ملک چھوڑنے کی تعداد میں کمی آئی ہے تو اسی کا تجزیہ کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان بیورو آف امیگریشن کے مطابق سب سے زیادہ پاکستانیوں کی تعداد سعودی عرب میں ہے۔ گذشتہ سال 2023 میں چار لاکھ 26 ہزار 951 پاکستانی شہری ملازمت کی غرض سے سعودی عرب گئے تھے۔

اب اس کے مقابلے میں رواں سال نومبر 2024 تک یہ تعداد چار لاکھ آٹھ ہزار 709 ہوگئی ہے یعنی گذشتہ سال کے مقابلے میں 2024 میں کمی دیکھی گئی ہے۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات میں گذشتہ سال 2023 میں دو لاکھ 29 ہزار 894 پاکستانی شہری گئے تھے جبکہ اب رواں سال  2024 (دسمبر کے اعدادوشمار کے علاوہ) یہ تعداد 63 ہزار 245 ہے، جو واضح کمی ہے جس کا تناسب 65 فیصد سے زیادہ ہے۔

تاہم عمان جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان بیورو آف امیگریشن کے مطابق گذشتہ سال 60 ہزار 46 پاکستانی عمان گئے تھے جبکہ رواں سال 2024 میں (دسمبر کے علاوہ) 72 ہزار سے زائد پاکستانی عمان گئے ہیں اور رواں سال پاکستانیوں کے لیے دوسرا پسندیدہ ملک ثابت ہوا ہے۔

اب مجموعی اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو گذشتہ سال پاکستان چھوڑنے والوں کی مجموعی تعداد آٹھ لاکھ 62 ہزار 477 تھی لیکن رواں سال یہ تعداد چھ لاکھ 63 ہزار 186 ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں ایک لاکھ 99 ہزار 439 کم ہے۔

پہلے پانچ ممالک جہاں پاکستانی شہری آباد ہیں، ان میں عمان اور بحرین کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔

لیکن اس تعداد میں واضح کمی متحدہ عرب امارات جانے والوں کی ہے، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں کمی کے ساتھ ایک لاکھ 66 ہزار افراد تک ہو گئی ہے، جو 65 فیصد سے زیادہ کمی ہے۔

مبصرین کیا کہتے ہیں؟

مبصرین کے مطابق رواں سال پاکستان چھوڑنے والوں میں کمی کی ایک وجہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانیوں کو ویزے جاری نہ کرنا ہوسکتی ہے۔

محمد سلمان کی پشاور میں خلیجی ممالک کے ویزوں کی درخواستوں پر کام کرنے والی ٹریول کمپنی ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پچھلے تین چار مہینوں سے سیر و تفریح کے لیے ویزا تو کیا پاکستانیوں کو فیملی ویزا اور ورک ویزا بھی نہیں دیا جا رہا اور اسی وجہ سے ہم اب کوشش کرتے ہیں کہ کسی کے لیے اپلائی ہی نہ کریں تاکہ ان کے پیسے ضائع نہ ہوں۔‘

تاہم ویزا کے حصول کی کوشش کرنے والے افراد شکایات کرتے ہیں کہ ان کو کوششوں کے باوجود ویزا نہیں دیا جا رہا ہے۔

سلمان نے بھی بتایا کہ ’ہمیں متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی ہدایت نہیں ملی ہے کہ ویزا پراسس نہ کریں، تاہم زیادہ تر ویزا درخواستیں مسترد ہو جاتی ہیں۔‘

سلمان کے مطابق: ’اگر پاکستانیوں کی بیرون ملک جانے میں کمی دیکھی گئی ہے تو اس کی بنیادی وجہ میرے خیال میں دبئی ویزا کے حصول میں مشکلات ہیں۔‘

انجینیئر بلال احمد آج کل سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں، تاہم وہ اس سے پہلے تقریباً دو مرتبہ ویزٹ ویزا پر دبئی گئے تھے۔

بلال نے بتایا کہ دبئی پاکستانی تعلیم یافتہ اور پیشہ ور افراد کے لیے نوکری ڈھونڈنے کے لیے ایک آسان منزل ہے اور زیادہ تر لوگ ویزٹ ویزا پر جا کر وہاں اپنے لیے نوکری ڈھونڈ لیتے ہیں۔

تاہم ابھی بلال کے مطابق ویزا حصول میں اگر مشکلات ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوکری ڈھونڈنے کے لیے پاکستانی نوجوان نہیں جا رہے اور بیرون ملک جانے والوں کی تعداد رواں سال کم ہے۔

بلال نے بتایا: ’میں خود ویزٹ ویزا لے کر دبئی نوکری ڈھونڈنے کے لیے گیا تھا لیکن نوکری نہیں ملی تو دبئی چھوڑ کر سعودی عرب آگیا۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوان یہی ویزٹ ویزا والا راستہ اپناتے ہیں۔‘

ملائیشیا جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں بھی گذشتہ سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔

گذشتہ سال 20 ہزار 905 پاکستانی ملائیشیا گئے تھے جو اب رواں سال کم ہو کر پانچ ہزار 542 پاکستانیوں تک ہے۔

ملائیشیا میں خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے بہت سے لوگ روزگار کی غرض سے آباد ہیں۔

بونیر میں ٹریول کمپنی چلانے اور ملائیشیا جانے میں لوگوں کی مدد کرنے والے ایک رہائشی نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’زیادہ تر یہاں سے لوگ ملائیشیا امیگریشن میں کچھ حکام کے ساتھ غیر قانونی ڈیل کر کے ملائیشیا داخل ہوتے ہیں۔‘

تاہم ٹریول کمپنی چلانے والے نے بتایا کہ ’تقریبا آٹھ مہینے پہلے ملائیشیا کی حکومت نے ان امیگریشن حکام میں سے بعض کو گرفتار کیا ہے، جس کی وجہ سے رواں سال ملائیشیا جانے والے پاکستانیوں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’اس میں رشوت دینے کے بعد لوگوں کو جا کر ورک پرمٹ ملتا تھا اور وہاں روزگار تلاش کرتے تھے، لیکن اب اس میں کمی آئی ہے۔‘

اسی طرح بحرین بیرون ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے، جہاں زیادہ پاکستانی مقیم ہیں۔

گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال بحرین جانے والے پاکستانیوں کی تعداد دگنی ہوئی ہے۔ گذشتہ سال 13 ہزار 345 پاکستانی شہری بحرین گئے تھے جبکہ رواں سال یہ تعداد 22 ہزار 455 ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل