بلوچستان کے ضلع قلات میں ایک مبینہ طور پر لاپتہ نوجوان کے اہل خانہ گذشتہ روز سے قومی شاہراہ پر احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے ہیں، جس کے باعث کراچی کا کوئٹہ اور افغانستان سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے اور شدید سردی میں مسافر سڑک پر پھنس گئے ہیں۔
اہل خانہ کے مطابق 20 سالہ سید اختر شاہ گورنمنٹ ڈگری کالج قلات کے طالب علم تھے اور گذشتہ تین ماہ سے ’لاپتہ‘ ہیں۔ ان کے خاندان کا انحصار مال مویشیوں پر ہے اور وہ اپنے خاندان میں پہلے نوجوان ہیں، جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) قلات رینج سہیل اختر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قلات کے نوجوان کے اہل خانہ کی جانب سے کراچی کو کوئٹہ اور افغانستان و ایران سے ملانے والی ریجنل کوآپریشن ڈولپمنٹ (آر سی ڈی) قومی شاہراہ پر ہفتے کے روز سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ نوجوان کی بازیابی کے لیے 150 سے زائد افراد قومی شاہراہ پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ مظاہرین نے ہفتے اور اتوار کی شب بھی قومی شاہراہ پر گزاری۔ اس احتجاج کے باعث قلات کی منفی 6 ڈگری سینٹی گریڈ سخت سردی میں ہزاروں مسافر پھنسے ہوئے ہیں اور 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کراچی کا کوئٹہ اور افغانستان سے زمینی رابطہ منقطع ہے۔
بقول ڈی آئی جی: ’تین بار مذاکرات کرنے کی کوشش کی گئی مگر مظاہرین آمادہ نہیں ہو رہے۔ لاٹھی چارج یا کسی قسم کی کارروائی سے قبل مذاکرات سے مسئلے کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوجوان اختر شاہ کے والد حسین شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ: ’تین ماہ قبل مجھے اور میرے بیٹے کو نامعلوم افراد نے گھر سے زبردستی اٹھایا تھا، اس وقت میرے خاندان کے احتجاج پر مجھے بازیاب کر دیا گیا مگر میرا بیٹا تاحال لاپتہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس وقت احتجاج میں مذاکرات کے دوران ہمیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ میرے بیٹے کو بھی بازیاب کروایا جائے گا، جس پر ہم نے احتجاج ختم کیا تھا مگر اس بار اس کی بازیابی تک احتجاج جاری رہے گا۔‘
لاپتہ نوجوان اختر شاہ کی بہن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم انتظامیہ سے گزارش کرتے ہیں کہ میرے بھائی کو بازیاب کروائے۔ ہم خواتین سمیت مسافروں کو بھی یہاں سردی میں مشکلات کا سامنا ہے، جو ہم ہرگز نہیں چاہتے مگر ہم مجبور ہیں۔‘
سینکڑوں مال بردار گاڑیاں، کنٹینرز اور مسافر بسیں احتجاج کے باعث سڑک کی بندش کی وجہ سے پھنسی ہوئی ہیں جبکہ ہزاروں مسافر جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں، کو شدید سردی اور دیگر مشکلات کا سامنا ہے۔
علی احمد نامی ایک مسافر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دو روز سے ہم یہاں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ سخت سردی کے باعث مشکلات کا سامنا ہے، ہوٹلوں پر ہزاروں مسافروں کے لیے کھانا دستیاب نہیں ہے اور دستیاب کھانا بھی دگنی قیمت پر ملتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’نہ ہم پیچھے جاسکتے ہیں اور نہ آگے جانا ممکن ہے۔ ہزاروں مسافروں نے ٹھٹھرتی سردی میں رات گاڑیوں میں گزاری۔ حکام سے گزارش ہے کہ احتجاج ختم کرکے مسافروں کو اس اذیت سے نکالیں۔‘