افغان طالبان کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیر مہاجرین و آبادکاری خلیل الرحمان حقانی جرگوں والی شخصیت تھے، یہ موقف کافی حد تک درست ہے کیونکہ میں خود اس کا شاہد ہوں۔
میں 2021 ستمبر میں ایک ماہ سے کم مدت میں دوسری مرتبہ صحافتی ذمہ داریوں کے سلسلے میں کابل گیا تھا تو خلیل الرحمان حقانی کو مختلف اقوام کے نمائندوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سنا۔ وہ اپنی تقریر میں لوگوں کو یقین دہانی کرا رہے تھے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں۔
خلیل حقانی ان چند سینیئر طالبان رہنماؤں میں شامل تھے جو کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد شہر میں داخل ہوگئے تھے۔ خلیل الرحمان حقانی اور حقانیوں کی زیادہ تعداد میں رہنما اور جنگجو کابل پہنچ گئے تھے۔ شہر میں ایک غیر یقینی کی صورتحال تھی اور کئی افغان سیاسی رہنما بھی کابل میں رہ گئے تھے۔ خلیل حقانی نے کابل کی وزارت امور صلح کی عمارت کو جرگوں کا مرکز بنایا تھا اور مختلف اقوام کے نمائندے ان سے ملتے اور طالبان کی حمایت کرتے تھے۔
خلیل الرحمان حقانی کے ساتھ کئی سالوں تک کام کرنے والے احمد اللہ احمدزئی کا کہنا ہے کہ کابل میں طالبان کے داخل ہونے کے بعد شہریوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کریں تو اس غیر یقینی کی صورتحال میں خلیل الرحمان حقانی لوگوں کو یقین دہانی کراتے تھے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ محفوظ ہیں۔ احمدزئی، جو کہ اس وقت کابل میں افغانستان بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں نائب سربراہ ہیں، نے کہا کہ خلیل الرحمان حقانی خود بھی لوگوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ کابل داخل ہونے کے بعد حقانی نے شہر میں رہنے والے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے ان کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی جن میں سابق صدر حامد کرزئی، منتظم اعلیٰ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار بھی شامل تھے۔
احمد اللہ احمدزئی کے مطابق کابل سقوط سے پہلے بھی سابق صدر اشرف غنی حکومت کے گورنروں، کورکمانڈرز اور پولیس سربراہان سمیت سینئر لوگ خلیل الرحمان حقانی سے رابطہ کرتے تھے تاکہ اپنے تحفظ کی یقین دہانی حاصل کرسکیں۔ سابق صدر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی بھی کابل میں رہ گئے تھے اور خلیل الرحمان حقانی ان سے ملنے ان کے گھر گئے تھے اور طالبان نے بعد میں کہا تھا کہ حشمت غنی نے طالبان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ خلیل حقانی کے اس کردار نے کسی حد تک دیگر طالبان رہنماؤں کے لیے کابل آمد کا راستہ ہموار کیا۔
خلیل حقانی کابل میں داخل ہوئے تو اس وقت بھی وہ امریکا کو مطلوب تھا اور فروری 2011 میں پچاس لاکھ ڈالر کا انعام بھی رکھا گیا تھا۔ احمدزئی کا مزید کہنا تھا کہ ’جب جمہوریت کا سقوط ہو رہا تھا تو کافی لوگ خلیل الرحمان حقانی سے رابطہ کرکے تسلیم /سرنڈر ہونے کی پیشکش کر رہے تھے۔ وہ قندھار، ہرات، مزار شریف اور دیگر علاقوں سے رابطہ کرنے والے ہر ایک کو یقین دہانی کراتے رہے کہ جو سرنڈر کرے گا وہ محفوظ رہے گا۔ لوگ ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں گورنر، کور کمانڈر یا پولیس سربراہ سرنڈر کر رہے ہیں۔‘
خلیل حقانی کتنے اہم تھے؟
قومی اور حکومتی لحاظ سے وہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے لیے اس لیے ایک اہم اثاثہ تھے کہ وہ نہ صرف اپنی زدران قوم بلکہ دیگر اقوام اور اہم شخصیات سے رابطے میں رہتے تھے۔ طالبان میں یہ سوچ موجود ہے کہ مختلف قبیلوں کی حمایت حکومت کرنے کے لیے اہم ہے۔ خلیل الرحمان حقانی تک لوگوں کی رسائی آسان تھی جبکہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے سراج الدین حقانی ملاقاتوں میں احتیاط کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک خلا پیدا ہوگیا ہے لیکن یہ خلا دیگر لوگوں کے ذریعے پُر کیا جائے گا۔ حقانی خاندان کی ان کوششوں میں خلیل حقانی کا ایک اہم کردار رہا ہے کہ جنگ کے دوران ناراض زدران قوم کی ناراضگیاں دور کی جائیں۔ خلیل حقانی پکتیا میں لوگوں کی پرانی دشمنیوں کو ختم کرانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے رہے۔
خلیل الرحمان حقانی اس لیے بھی اہم تھے کہ طالبان کے لیے ان کے عوامی رابطوں کا سلسلہ جاری رہا اور اسی عوامی کردار کی وجہ سے وہ خود حملہ آور کے نشانے پر آ گئے۔
خودکش حملہ آور نے اپنے مسائل کے لیے وزیر سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور وزیر نے اس کو پاس بلایا تو اس نے گلے لگانے کے ساتھ ہی دھماکہ کیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں خودکش حملہ آور بڑی چالاکی سے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ ’واک تھرو گیٹ‘ سے گزر گیا اور دائیں ہاتھ پر پلستر لگا کر ایسا تاثر دیا کہ وہ زخمی ہے اور گیٹ پر موجود سکیورٹی اہلکار نے اس کو جانے دیا۔
گیٹ سے گزرتے ہوئے اور بعد میں مسجد میں بیٹھے ہوئے تصاویر میں حملہ آور مشکوک نظر آتا ہے تاہم کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا اور وہ نماز کے بعد وزیر مہاجرین کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
پاکستان اور ایران کی جانب سے بغیر سفری دستاویزات والے افغان مہاجرین کی واپسی پر انتظامات اور آبادکاری بھی بحیثیت وزیر ایک چیلنج تھا لیکن اپنی جان دینے تک وہ اس معاملے میں فعال رہے تھے اور کئی مرتبہ واپس جانے والے مہاجرین کے لیے انتظامات دیکھنے ننگرہار گئے تھے۔ وہ پشاور میں مہاجرین شوریٰ کے معاملات میں ایک فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
احمدزئی کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ نے ان پر 50 لاکھ ڈالر کا اعلان کیا تھا لیکن انہوں نے کبھی بھی خوف کا احساس نہیں کیا تھا۔ ’خلیل حقانی کے قریبی ساتھیوں کو ان پر ڈرون حملے کا خدشہ ہوتا تھا لیکن خود حقانی کو کبھی نہیں رہا۔‘
امریکی حکومت کی ایک ویب سائٹ کے مطابق خلیل الرحمان حقانی نیٹ ورک کے ایک سینئر رہنما تھے جس کو امریکا نے فروری 2011 میں دہشت گرد افراد کی فہرست میں شامل کرکے ان کے بارے میں معلومات دینے والوں کے لیے 50 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔ نو فروری کو اقوام متحدہ نے بھی خلیل الرحمان حقانی کو پابندیوں والی فہرست میں شامل کیا تھا اور ان پر القاعدہ، اسامہ بن لادن اور طالبان کی حمایت کے الزامات لگائے گئے تھے۔ ان پر طالبان، حقانی نیٹ ورک کے لیے فنڈز جمع کرنے اور افغانستان میں طالبان آپریشنز کی حمایت کے الزامات بھی لگائے گئے تھے۔
سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کے امریکی اتحاد میں شامل ہونے کے بعد پاکستان نے کئی افغان طالبان رہنماؤں کو گرفتار کیا تھا جن میں خلیل حقانی بھی شامل تھے۔ خلیل حقانی نے گزشتہ سال شمشاد ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستانی طالبان کے بانی بیت اللہ محسود نے فوجیوں کی رہائی کے تبادلے میں ان کے بشمول کئی افغان قیدیوں کو رہا کرایا تھا۔
خلیل الرحمان حقانی کے قتل میں کون ملوث اور طالبان کیا کہتے ہیں؟
افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے دسمبر 12 کو خوست میں وزیر مہاجرین و آبادکاری خلیل الرحمان حقانی کے جنازے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر پر حملے کی تحقیقات ہوگی اور نتائج سامنے آئیں گے اور اس میں جس کا کردار تھا وہ سامنے آجائے گا۔
داعش نے دسمبر 11 کو وزارت مہاجرین کی عمارت کے اندر خلیل الرحمان حقانی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ افغان عبوری حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ’خوارج‘ پر حملے کا الزام لگایا تھا۔ طالبان داعش کو خوارج کہتے ہیں۔ طالبان رہنما افغانستان میں داعش کے وجود سے انکاری ہیں لیکن کابینہ کے ایک اہم وزیر تک ایک خودکش حملہ آور کا پہنچنا اور حملہ کرکے جان لینے نے طالبان کے سکیورٹی نظام پر سوالات اٹھائے ہیں۔
دوسری جانب داعش نے اس حملے سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ حساس علاقوں میں اہم شخصیات کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ویسے تو داعش نے طالبان حکومت کے تقریباً ساڑھے تین سال میں آٹھ اہم شخصیات کو نشانہ بنایا ہے لیکن ان میں سب سے اہم شخصیت خلیل الرحمان حقانی تھے جو وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے چچا تھے۔ اس سے پہلے تین سالوں میں داعش نے بلخ کے گورنر، بدخشان کے نائب گورنر، کابل کے کور کمانڈر، بغلان صوبے کے پولیس سربراہ، بدخشاں صوبے کے پولیس سربراہ، اور طالبان کے دو اہم مذہبی سکالرز مولوی رحیم اللہ حقانی اور مولوی مجیب الرحمان انصاری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ناظم الامور، روسی سفارتخانے، حزب اسلامی کے مرکز اور سربراہ حکمت یار اور چینی باشندوں کے ہوٹل پر حملوں کی ذمہ داری بھی داعش لے چکی ہے۔
تحقیقات ایک چیلنج
اگرچہ داعش نے ذمہ داری قبول کی ہے اور طالبان ترجمان نے خود بھی اسی گروپ پر الزام بھی لگایا تھا لیکن طالبان حکام کے لیے تحقیقات ایک چیلنج ہے۔ حکام کو یہ معلوم کرنا ہے کہ خود کش حملہ آور کون ہے، کہاں سے آیا تھا، اسے کیوں روکا نہیں گیا، بعد میں اسے کیوں پہچانا نہیں جا سکا اور وہ کیسے آسانی سے وزیر تک پہنچ گیا؟ طالبان کے لیے کابل میں اب بھی داعش کی موجودگی ایک چیلنج ہے۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے خلیل حقانی کے نماز جنازے کے موقع پر کہا کہ ’اسلامی امارت کے گزشتہ سات ماہ میں داعشیوں نے افغانستان میں سات حملے کیے ہیں۔ اسلامی امارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تحقیقات کی بنیاد پر ان سات حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان کے باہر ہوئی تھی۔ اس واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ نتائج سامنے آ جائیں گے کہ اس میں کس کا کردار سامنے اتا ہے۔ ہم تمام ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ ایسے ظالموں پر آنکھیں بند نہ کریں کیونکہ یہ آپ کے اور ہمارے نقصان میں ہے، ایسے ظالموں کو اڈے نہ دیا کریں۔ ایسے ظالموں کو اپنی آستین میں نہ چھپائیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ وزیر خارجہ نے خلیل الرحمان حقانی پر حملے کی ذمہ داری دوسرے ممالک پر ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن سوالات تو افغانستان کے اپنے سکیورٹی نظام پر اٹھیں گے۔
پاکستان میں گرفتاری اور فوجیوں کے تبادلے میں رہائی
شمشاد ٹی وی کی ایک دستاویزی فلم میں طالبان رہنما خلیل الرحمان حقانی کا کہنا تھا کہ وہ ان 30 سے زائد قیدیوں میں شامل تھے جنہیں پاکستانی طالبان کے بانی بیت اللہ محسود نے زیر حراست پاکستانی فوجیوں کے تبادلے میں رہا کروایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں چار سال قید کے بعد طالبان کے ایک اہم کمانڈر اور ملا عمر کے قریبی ساتھی مولوی اختر محمد عثمانی کے دو بھائیوں، خلیل الرحمان حقانی کے بھتیجے ڈاکٹر نصیر الدین حقانی، نصیر الدین کے ماموں حاجی مالی خان سمیت 35 قیدیوں کو پاکستانی فوجیوں کے تبادلے میں رہا کیا گیا۔ یہ تبادلہ جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے میں ہوا تھا۔
خلیل الرحمان حقانی نے بتایا، ’امیر بیت اللہ محسود نے ہمارے بدلے میں فوجیوں کو رہا کروا لیا تھا۔ بیت اللہ محسود نے واضح کر دیا تھا کہ اگر ان افراد کو رہا نہیں کیا گیا تو فوجی بھی رہا نہیں ہوں گے۔ ان مذاکرات میں کافی وقت لگ گیا تھا۔ مجھے اطلاعات ملی تھیں کہ امیر صاحب نے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر یہ لوگ رہا نہیں کیے گئے تو ہم کئی فوجیوں کو مار دیں گے۔ بعد میں بیت اللہ محسود نے رابطوں کے لیے ایک قومی جرگہ تشکیل دیا تھا۔ اس جرگے کی وساطت سے تبادلہ ہوا، اور ہمیں ایک طیارے میں وانا لے جایا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جب طیارے میں ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے تو فوجیوں نے ہمیں خاموش رہنے کا کہا۔ طیارے میں ہماری آنکھوں سے پٹیاں ہٹا دی گئیں، ہم نے نماز ادا کی، اور پھر محسود کے علاقے میں ایک پل پر تبادلہ ہوا۔ فوجیوں کو بھی وہاں لایا گیا تھا۔ پل کے کنارے قبائلی ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔‘