ملک جغرافیے، انفراسٹرکچر یا اداروں کے مجموعے کا نام نہیں، بلکہ عوام ملک کو بناتے ہیں، وہی اس کا اہم ترین اثاثہ ہوتے ہیں اور اس ملک کی ترقی، کامیابی اور ناکامی کا انحصار انہی پر ہوتا ہے۔
ان میں سے کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو نہ صرف خود نمایاں ہوتی ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہیں۔
ویسے تو پاکستان میں بہت سی ایسی شخصیات کے نام لیے جا سکتے ہیں جنہوں نے 2024 میں اپنے کام سے اپنی پہچان بنائی۔ ہم نے اس کے لیے جو طریقۂ کار وضع کیا اس میں انڈپینڈنٹ نے یہ قرینہ رکھا کہ سیاسی شخصیات کو شامل نہ کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی نمائندہ شخصیت ایسی ہونی چاہیے جس پر تمام قوم کا نہ سہی، مگر اکثر کا اتفاق ہونا چاہیے۔ سیاسی شخصیات لامحالہ طور پر ایسی ہوتی ہیں کہ جہاں ان کے چاہنے والے بہت ہوتے ہیں، وہیں ان کے مخالفین کی بھی کمی نہیں ہوتی، خاص طور پر ہمارے ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں جو سب کے سامنے ہیں۔
ہمارے سامنے سوال یہ تھا کہ 2024 میں کون سا پاکستانی ایسا ہے جس نے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کیا ہو؟ اس کے لیے شعبے کی قید نہیں تھی، کھیل، انسانی حقوق، تعلیم، فن و ثقافت، سبھی شعبوں کو مدنظر رکھا گیا۔
اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو کی ادارتی ٹیم نے درجنوں شخصیات کے ناموں پر غور کیا، جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل تھے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے محدود اووروں کی کرکٹ کے کپتان محمد رضوان نے آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں اور جنوبی افریقہ کو جنوبی افریقہ میں شکست دے کر ایک منفرد اعزاز حاصل کیا، اور وہ پہلے کپتان بنے جنہوں نے جنوبی افریقہ کو ان کے اپنے ہی دیس میں ایک روزہ مقابلوں میں وائٹ واش کیا ہو۔
اسی دوران نوجوان پاکستانی اوپنر صائم ایوب نے اپنے جارحانہ کھیل سے عالمی سٹیج پر اپنی آمد کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ اس سال پیرس میں اولمپکس کھیل منعقد ہوئے جن میں کشمالہ طلعت وہ پہلی پاکستانی نشانے باز بنیں جنہوں نے براہِ راست کوالیفائی کیا۔ اگرچہ وہ کوئی میڈل نہ حاصل کر سکیں، لیکن ایسا ملک جہاں مردوں کے لیے بھی سہولیات کا فقدان ہے، وہاں ایک خاتون کے لیے اولمپکس میں کوالیفائی کرنا اعزاز کی بات تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کھیلوں سے ہٹ کر دیکھیں تو اسی سال عالمی منظر نامے پر ایک اور مسلمان اور پاکستانی خاتون عائلہ مجید نے ایک انوکھا اعزاز اپنے نام کیا۔ انہوں نے دنیا کے معتبر ترین اداروں میں سے ایک پروفیشنل اکاؤنٹنسی باڈی ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس (اے سی سی اے) کی 120 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلم صدر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔
عائلہ مجید پہلی جنوبی ایشیائی خاتون بھی ہیں جو دنیا کے معتبر ترین اداروں میں شمار ہونے والے اے سی سی اے کے صدر کے عہدے تک پہنچی ہیں۔
اس کے علاوہ جن پاکستانی خواتین کا نام بین الاقوامی سطح پر گونجا ان میں سے ایک ماہ رنگ بلوچ بھی ہیں جن کو گمشدہ افراد کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر ٹائم میگزین نے دنیا کی سو اہم ترین شخصیات میں شامل کیا۔
لیکن وہ شخصیت جس نے 2024 میں پوری قوم کے دل فخر سے بھر دیے، جس نے عالمی سطح پر پاکستانی پرچم بلند کیا اور جس نے ایک غریب اور پسماندہ پس منظر سے اٹھ کر دنیا کی بلند ترین سٹیج تک رسائی حاصل کی، وہ بلاشبہ ایک ہی شخص ہے، ارشد ندیم۔
وہ ملک جہاں کرکٹ ہی اوڑھنا بچھونا ہے اور جہاں ایتھیلیکٹس کی نہ کوئی روایت ہے نہ مثال، وہاں جیولن تھرو جیسے کھیل کی طرف راغب ہونا ہی ارشد ندیم کی ہمت اور جرات کی دلیل ہے۔ ان سے قبل شاید ہی سو میں سے کوئی ایک شخص جیولن تھرو کھیل کے نام سے واقف ہو، مگر ارشد ندیم نے تنِ تنہا اس شعبے کو متعارف کروا کر نوجوانوں کو تحریک دی کہ وہ ایتھلیٹکس کی طرف بھی توجہ دیں۔
ارشد ندیم نے 2024 پیرس اولمپکس میں جیولین تھرو میں گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رقم کی۔ انہوں نے 92.97 میٹر دور نیزہ پھینکا جو نہ صرف انہیں واضح فرق سے طلائی تمغہ دلا بلکہ اولمپک کا ریکارڈ بھی پارہ پارہ کر دیا۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس وقت کے ورلڈ چیمپیئن انڈین کھلاڑی نیرج چوپڑا کو بھی شکست دی اور اس مقابلے کے لیے واضح فیورٹ تھے۔ یہ پاکستان کا تقریباً 40 سال بعد اولمپکس میں کوئی گولڈ میڈل ہے۔
ارشد ندیم کی کامیابی اس لحاظ سے بھی حیرت انگیز ہے کہ وہ بغیر کسی سہارے، انفراسٹرکچر، پہلے سے قائم ایتھلیٹکس کی ملکی روایت اور کوچنگ کے فقدان جیسے پہاڑوں کو صرف اور صرف اپنی مسلسل محنت اور لگن سے سر کر اس مقام تک پہنچے۔
کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال جیسے کھیلوں میں فیڈریشنیں بنی ہوئی ہیں، ٹیمیں موجود ہیں، سکول اور کالج کی سطح پر یہ کھیل کھیلے جاتے ہیں، مگر پاکستان کا جیولن تھرو کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اس لیے ارشد کی کامیابی بےمثال اور قابلِ ستائش ہے۔
ارشد نے ان نوجوانوں کے لیے مثال بھی قائم کی کہ سخت محنت، انتھک کوشش اور اپنی منزل کی طرف جوش و خروش سے بڑھنے کی صورت میں آپ کسی بھی شعبے میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں۔
یہ تو ہماری رائے تھی۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو آپ کے خیال میں کون سا ایسا پاکستانی ہے جو سال کی اہم ترین شخصیت کے اعزاز کا حقدار ہے؟