اقتصادی ترقی کے لیے ’اڑان پاکستان‘ منصوبہ کتنا قابل عمل ہے؟

ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے ’اڑان پاکستان‘ منصوبے کا افتتاح تو کر دیا ہے، لیکن ماہرینِ معیشت سمجھتے ہیں کہ موثر فریم ورک کے بغیر اس پر عمدرآمد حکومت کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔

31 دسمبر 2024 کی تصویر میں وزیر اعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار، وفاقی وزیر برائے خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور دیگر حکام اسلام آباد میں ’اڑان پاکستان‘ کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر (شہباز شریف فیس بک اکاؤنٹ)

ملک کی اقتصادی ترقی اور اسے ’تین سال میں بڑے ممالک کی صف میں لانے‘ کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے ’اڑان پاکستان‘ منصوبے کا افتتاح تو کر دیا ہے، لیکن ماہرینِ معیشت سمجھتے ہیں کہ موثر فریم ورک کے بغیر اس پر عمدرآمد حکومت کے لیے ایک چیلنج ہو گا۔

’اڑان پاکستان‘کی کامیابی ’برآمدات کی بنیاد پر ترقی‘ سے مشروط ہوگی، جسے پاکستان کے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے حالیہ بیل آؤٹ کے پس منظر میں ترتیب دیا گیا ہے۔

منگل کو اس منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’اڑان پاکستان کا محور برآمدات کی بنیاد پر ترقی ہو گی اور اس مقصد کے لیے ہمیں مقامی صنعت کو مستحکم دینا ہو گا تاکہ ہم قابل برآمد اشیا بنا سکیں اور انہیں دنیا کو بھیج سکیں۔‘

لیکن کیا حکومت کا یہ قومی اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ ملک کی معیشت کو تبدیل کرنے میں متاثر کن ثابت ہوگا؟ کیا اس سے ملکی معاشی صورت حال میں مثبت اور واضح تبدیلی آ سکے گی؟ اور اس منصوبے میں وہ کیا نکات ہو سکتے ہیں، جو اسے کامیاب نہ بنا سکے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

ماہرِ معیشت عابد قیوم سلہری نے اس اقدام کی کامیابی کو چار نکات کے مکمل ہونے سے مشروط کیا ہے۔

ڈاکٹر عابد سلہری ایشیائی ترقیاتی بینک کی مشاورتی کونسل کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ پانچ سالہ منصوبہ ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب پاکستان کی معیشت سال 2022 میں لڑکھڑانے اور 2023 میں سنبھلنے کی کوشش کے بعد اب قدرے بہتر ہو چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول عابد سلہری: ’اس تناظر میں منصوبے میں دی گئی ترجیحات پر عمل کیا جائے تو پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہو سکتا ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کروانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے لیے ادارہ جاتی انتظام جن میں وفاق و صوبوں کے مابین کوآرڈی نیشن اور سیاسی درجہ حرارت میں نمایاں کمی درکار ہوگی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ مختص کردہ فنڈز یا پیسوں کے لیے ملک کی معاشی صحت بہت ضروری ہے، جس کا انحصار فروری میں آئی ایم ایف کی قسط ملنے اور ملک کے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات پر ہے۔ ’ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے بورڈ میں امریکہ کا بورڈ اہمیت کا حامل ہوگا۔‘

عابد سلہری کے مطابق انسانی وسائل، جن میں بیوروکریسی کے کام کرنے کے عمل پر بھی اس کا انحصار ہے۔ جبکہ ای کامرس کے لیے ملک میں انٹرنیٹ و ٹیکنالوجی کی بلا تعطل فراہمی بھی ضروری ہے۔‘

انہوں نے چین اور متحدہ عرب امارات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بیشتر پابندیوں کے باوجود انٹرنیٹ کام کرتا ہے۔ ’اگر ہم ای پاکستان کی طرف جانا چاہ رہے ہیں تو انٹرنیٹ کی صوابدیدی بندش کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ پلان کافی موزوں ہے لیکن اس پر عملدرآمد کیسے کروانا ہے، ایک اہم سوال ہے۔‘

دوسری جانب معیشت اور نجکاری کے امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ نئے منصوبے میں مقرر کیے گئے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

شہباز رانا نے کہا کہ یہ منصوبہ اس لحاظ سے اچھا ہے کہ یہ سال 2029 تک برآمدات، سرمایہ کاری، جی ڈی پی کی شرح نمو اور ملک کی مالیت ایک ارب ڈالر تک لے جانے کی بات کرتا ہے ’لیکن ان اہداف کا تعین اور انہیں حاصل کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔‘

ان کے خیال میں یہ منصوبہ زیادہ تر حکومت کے عزائم پر مبنی ہے۔ اصل زیر عمل منصوبہ آئی ایم ایف پروگرام ہے جو ایک طرح کا سٹیبی لائزیشن پروگرام ہے۔

انہوں نے کہا: ’کوئی ترقی کی شرح چھ یا سات فیصد ہونے کی خواہش نہیں کر سکتا، جس وقت معیشت کی شرح نمو پانچ فیصد سے زیادہ ہوگی اور ملک میں مالیاتی اور بیرونی شعبے کا بحران ہوگا۔ معیشت اسی رفتار سے ترقی کرے گی جس رفتار سے یہ بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نئے منصوبے میں جو ہدف مقرر کیا گیا ہے وہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘

شہباز کے مطابق حکومت نے انٹرنیٹ کو سست کر کے اور فائر وال لگا کر جس قسم کی پابندیاں عائد کی ہیں، ان کے برے اثرات کے نتیجے میں حکومت کی برآمدات بڑھانے کی خواہش پوری نہیں ہو سکے گی کیونکہ مارکیٹ میں کافی رغبت نہیں رہے گی۔ ’منصوبوں کا ہونا اچھی بات ہے لیکن مجھے شک ہے کہ کیا ان منصوبوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان پر عملدرآمد کرنے کا موثر فریم ورک موجود نہیں ہے۔‘

دوسری جانب معاشی ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے متعلقہ اہداف پر مستقل مزاجی کے ساتھ عملدرآمد کرنے کے لیے مربوط منصوبے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کو کافی پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ ’تاہم اب اس کے باقاعدہ آغاز کے بعد اس پر عملدرآمد کرنے کے لیے مربوط منصوبے کی ضرورت ہے تاکہ جامع پالیسی سازی کی جانب جایا جائے جو ملک کا مستقبل ہے۔‘

ڈاکٹر خالد کے مطابق: ’ہم پالیسیاں بنائے جا رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔ اس کے لیے حکومت کو ایک فریم ورک پر عمل کرنا ہوگا جن میں وسائل کی دستیابی، وزارتوں کا آپس میں مل کر کام کرنا، انسینٹوائز کرنا یعنی بیوروکریسی کو خصوصی کام کے لیے ٹریننگ دینا، بیوروکریسی کو ٹیکنالوجی اور دیگر سکل سیٹ دینا ضروری ہیں۔

بقول ڈاکٹر خالد ولید: ’اگر ان تمام اہداف پر مستقل مزاجی کے ساتھ عملدرآمد ہو جائے، پھر چاہے اس دوران حکومت تبدیل بھی ہو، تب بھی حقیقی اقتصادی صلاحیت کو بروئے کار لایا جا سکے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت