جنوبی کوریا کے تفتیش کاروں نے مارشل لا کی ناکام کوشش پر مواخذے کے نتیجے میں معطل ہونے والے صدر یون سک یول کی سکیورٹی ٹیم کی مداخلت کے بعد حفاظتی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے جمعے کو ان کی گرفتاری کی کوشش کو روک دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر یون سک یول، جنہیں پہلے ہی قانون سازوں کی جانب سے عہدے سے معطل کیا جا چکا ہے، کے وارنٹ گرفتاری پر اگر عمل ہوتا ہے تو وہ جنوبی کوریا کی تاریخ میں گرفتار ہونے والے پہلے صدر بن جائیں گے۔
صدر یون سک یول نے تین دسمبر 2024 کی رات چار دہائیوں سے زائد عرصے میں پہلی بار مارشل لا کا اعلان کیا تھا، لیکن قانون ساز اس حکم نامے کو مسترد کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس کے بعد انہوں نے چار دسمبر کو اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔
بعدازاں 14 دسمبر کو جنوبی کوریا کی پارلیمان نے مارشل لا لگانے کی ناکام کوشش پر انہیں عہدے سے ہٹانے کے حق میں ووٹ دے دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یون سک یول عہدے سے معطل ہیں اور انہیں قید یا سزائے موت کا سامنا ہے۔
یون سک یول کے مارشل لا کے حکم نامے کی تحقیقات کرنے والے کرپشن انویسٹی گیشن آفس (سی آئی او) نے ایک بیان میں کہا: ’گرفتاری کے وارنٹ پر عملدرآمد میں تعطل کی وجہ سے گرفتاری آج مؤثر طور پر ناممکن تھی۔‘
یون سک یول کی صدارتی سکیورٹی سروس اور ان کے فوجی یونٹ کے ساتھ تصادم کے بارے میں بیان میں کہا گیا: ’موقعے پر موجود اہلکاروں کی حفاظت کے حوالے سے تشویش کی وجہ سے گرفتاری کی کوشش کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘
وارنٹ کی آخری تاریخ پیر (چھ جنوری) ہے، جس میں صرف چند دن باقی رہ گئے اور یون سک یول نے رواں ہفتے کے شروع میں تحقیقات کرنے والے حکام سے ’مقابلہ‘ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
کرپشن انویسٹی گیشن آفس کے تفتیش کاروں بشمول سینیئر پراسیکیوٹر لی ڈے وان کو قبل ازیں صدر کی رہائش گاہ میں داخل ہونے دیا گیا تھا تاکہ یون سک یول کو حراست میں لینے کے لیے ان کے وارنٹ پر عمل درآمد کی کوشش کی جا سکے۔
لیکن سیئول کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک موقعے پر صدارتی سکیورٹی سروس کے تحت فوجی ’صدارتی رہائش گاہ پر سی آئی او کے ساتھ تصادم میں مصروف تھے۔‘
عدالت سے منظور شدہ وارنٹ پر عمل درآمد کو روکے جانے سے قبل یون سک یول کی سکیورٹی ٹیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ صدر تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کرپشن انویسٹی گیشن آفس کے تفتیش کاروں کے ساتھ ’مذاکرات‘ کر رہے تھے۔
یون سک یول کی سکیورٹی سروس، جو اب بھی ملک کے موجودہ سربراہ مملکت کے طور پر ان کی حفاظت پر مامور ہے، اس سے قبل صدارتی دفتر پر پولیس کے چھاپوں کی کوشش کو روک چکی ہے۔
صدر نے خود تفتیش کاروں کی طرف سے طلبی کے تین راؤنڈ کو نظر انداز کیا ہے، جس کے بعد ان کے وارنٹ گرفتاری حاصل کیے گئے۔
یون سک یول کی قانونی ٹیم نے گرفتاری کے وارنٹ پر عمل درآمد کی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے اس اقدام کے خلاف مزید قانونی کارروائی کرنے کا عزم کیا ہے۔
ان کے وکیل یون کاپ کیون نے کہا: ’وارنٹ پر عملدرآمد غیر قانونی اور غلط ہے، درحقیقت یہ قانونی نہیں ہے۔‘
نیوز ایجنسی یونہپ نے رپورٹ کیا کہ جمعے کو استغاثہ نے دو اعلیٰ فوجی حکام پر بھی فرد جرم عائد کی، جن میں سے ایک کو گذشتہ ماہ مختصر طور پر مارشل لا کمانڈر نامزد کیا گیا تھا۔ وہ دونوں پہلے ہی حراست میں تھے۔
اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے دیکھا کہ پولیس کی درجنوں بسیں اور سینکڑوں اہلکار وسطی سیئول میں صدارتی احاطے کے باہر سڑک پر قطار میں کھڑے تھے۔
جنوبی کوریا کے میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ سی آئی او اہلکار یون سک یول کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کے لیے سیئول کے قریب گواچیون میں واقع ان کے دفتر لے جانا چاہتے تھے۔
اس کے بعد، انہیں موجودہ وارنٹ پر 48 گھنٹے تک حراست میں رکھا جا سکتا تھا۔ تفتیش کاروں کو انہیں مزید حراست میں رکھنے کے لیے ایک اور وارنٹ گرفتاری کی درخواست دینے کی ضرورت ہے۔
یون سک یول کی قانونی ٹیم پہلے ہی آئینی عدالت میں گرفتاری کے وارنٹ کو ’غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کر چکی تھی۔
لیکن سی آئی او کے سربراہ اوہ ڈونگ وون نے خبردار کیا کہ جو کوئی بھی حکام کو یون سک یول کی گرفتاری سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ خود ہی قانونی کارروائی کا سامنا کر سکتا ہے۔
یون سک یول کو ایک الگ آئینی عدالت کی سماعت کا بھی سامنا ہے، جو پارلیمنٹ سے ان کے مواخذے کی توثیق یا اسے مسترد کرے گی۔