خیبرپختونخوا کے سنگین حالات سنجیدگی کے متقاضی

جب تک وفاق اور ریاست خیبر پختونخوا کے معاملات کو نظرانداز کرتے رہیں گے حالات تیزی سے قابو سے باہر ہوتے جائیں گے۔

پاکستان کے ضلع خیبر میں تین اگست 2021 کو پاکستانی فوج کے دو اہلکار افغانستان سرحد پر پٹرولنگ ڈیوٹی پر مامور ہیں (اے ایف پی)

خیبرپختونخوا گذشتہ چار دہائیوں سے زیادہ دہشت گردی اور بدامنی کا شکار رہا ہے۔ شاید ہی کوئی خاندان ایسا رہ گیا ہو جس کے گھروں سے جنازے نہ نکلے ہوں۔

عوام سے لے کر اعلی پولیس افسران اور ہائی پروفائل سیاستدان صوبے میں لگی اس آگ کی نذر ہو چکے ہیں۔ فوج درجنوں آپریشنز کر چکی ہے اور ہزاروں شہدا قربان کر چکی ہے۔

آرمی پبلک سکول کے سانحے بعد ہونے والے آپریشنز کے نتیجے میں کچھ سال لوگوں نے امن و امان کے حوالے سے سکھ کا سانس لیا۔

لیکن گذشتہ دو سالوں سے افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد حالات تیزی سے بگڑے اور آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ریاست کو ایک دفعہ پھر عمل داری قائم کرنے کے لیے حرکت میں آنا پڑے گا۔

سابقہ فاٹا کے اضلاع کی تو بات چھوڑ ہی دیں کہ وہاں کیا صورت حال ہے، صوبے کے جنوبی اضلاع میں اس وقت یہ صورت حال ہے کہ وہاں پولیس پیٹرولنگ نہیں کر پا رہی۔

اس معاملے پر گورنر خیبر پختونخوا سے سوال کیا گیا کہ ’کیا واقعی مغرب کے بعد پولیس پیٹرولنگ نہیں کر پا رہی‘، تو ان کا جواب تھا کہ ’آپ معلومات کی تصحیح کر لیں۔ مغرب نہیں بلکہ سہ پہر کے بعد پولیس پیٹرولنگ نہیں کر پاتی اور ڈی آئی خان جیسے شہر میں رہزنوں اور دہشت گردوں کی باقاعدہ چیک پوسٹیں بن جاتی ہیں۔‘

اگر ایک صوبے کا گورنر یہ حقائق عوامی طور پر بتا رہا ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حالات کتنے بگڑ چکے ہیں۔

قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس صوبے کے وزیراعلی، گورنر اور مولانا فضل الرحمٰن کا تعلق ڈیر اسماعیل خان سے ہے اور وہ فلور آف دی ہاؤس پر کئی بار ان حالات کی سنگینی پر توجہ دلانے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔

لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ وفاق ہو، ریاستی ادارے ہوں یا پھر مین سٹریم میڈیا وہ ابھی تک خیبر پختونخوا کے حالات پر توجہ دینا تو دور کی بات بلکہ بالکل خاموش ہیں۔

جس صوبے میں چار اضلاع میں پولیس ہڑتال پر چلی جائے لیکن مین سٹریم میڈیا ترامیم اور نمبر گیم پر میراتھن ٹرانسمیشنز میں ہی ڈوبا رہے تو اسے افسوس ناک ہی کہا جا سکتا ہے۔

صوبائی حکومت کی کیا بات کی جائے، تحریک انصاف کو اس وقت خیبر پختونخوا میں تیسری ٹرم مل چکی ہے لیکن وہاں کے ذمہ دار اور آزاد صحافیوں سے پوچھا جائے تو جواب یہی ملتا ہے کہ یہاں حکومت اور گورننس نام کی کوئی چیز ہوتی تو ہم ضرور آپ کو بتاتے۔

خیپر پختونخوا کے دو نامور صحافیوں محمود جان بابر اور عقیل یوسفزئی سے گذشتہ ہفتے ان معاملات پر تفصیل سے بات ہوئی۔

دونوں کا گلا یہ تھا کہ مین سٹریم میڈیا ہو یا وفاق وہ خیبر پختونخوا کی صورت حال کو نظرانداز کر رہے ہیں جس سے معاملات بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔

دونوں اس پر بھی متفق نظر آئے کہ پختونخوا کی حکومت کا مین ایجنڈا قیدی نمبر 804 ہے نہ کہ صوبے کا امن و امان اور عوام کے مسائل کیونکہ وہ صاف کہتے ہیں کہ عوام نے انہیں ووٹ عمران خان کی رہائی کے لیے دیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت صوبے کو مورچہ بنا کر ریاست اور وفاق پر حملہ آور ہے جس کا براہ راست نقصان صوبے کے عوام کو پہنچ رہا ہے جو انتہائی خراب امن و امان کی صورت حال اور بیڈ گورننس کی صورت میں اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

دوسری طرف وفاق کی خاموشی بھی مجرمانہ ہے، اگر اسلام آباد میں کہیں بھی یہ سوچ ہے کہ صوبے کے عوام نے ووٹ دیا ہے تو اب بھگتیں تو یہ خیبر پختونخوا کے عوام کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔

ریاست بھی ان معاملات پر اب مزید خاموش نہیں سکتی اگر امن و امان کی صورت حال مزید بگڑتی ہے تو اس کے اثرات سے اسلام آباد اور باقی ملک کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔

جس صوبے کا وزیراعلی افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کا اعلان کر دے اور ایسے میں چار اضلاع کی پولیس ہڑتال پر ہو تو اس سے صرف اور صرف شدت پسندوں کے ہاتھ ہی مضبوط ہوں گے۔

جب تک وفاق اور ریاست خیبر پختونخوا کے معاملات کو نظرانداز کرتے رہیں گے حالات تیزی سے قابو سے باہر نکلتے جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خدانخواستہ لیکن حالات اتنے سنگین ہو چکے ہیں کہ مزید تاخیر کے بعد شاید اگر ہم چاہیں بھی تو حالات قابو میں نہیں آ سکیں گے۔

وفاق اور ریاست کو جمہوری ڈومین میں رہتے ہوئے کم از کم تحریک انصاف کو اس ایک نکاتی ایجنڈا پر مذاکرات کی میز پر لانا پڑے گا اور ان کو یہ احساس دلانا پڑے گا کہ امن و امان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے اور خیبر پختونخوا کے حالات پر مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا۔

اگر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اس معاملے پر بھی مزید غیر سنجیدگی دکھاتی ہے تو کم از کم صوبے کے عوام یہ جان جائیں گے ان کی حالت زار کی زمہ داری براہ راست کس پر عائد ہوتی ہے۔

آخر میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ تحریک انصاف کی ریاست سے لڑائی کو پنجابی پختون لڑائی کہنے اور بنانے والے اس ملک کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔

پختون پرامن لوگ ہیں اور اپنے لیے وہی امن اور ترقی چاہتے ہیں جو کہ پنجاب میں ہو رہی ہے۔

تحریک انصاف پارلیمانی طور پر صوبے کی نمائندہ جماعت ہے لیکن انہوں نے 37 لاکھ ووٹ لیے، چار کروڑ کی آبادی والے صوبے میں ڈھائی کروڑ ووٹرز ہیں۔

 صوبے کی جس اکثریت نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیا تو وہ اکثریت کہاں جائے؟ خصوصاً جب وفاق، ریاست اور مین سٹریم میڈیا بھی مکمل خاموش ہوں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر