پاکستان کے مرکزی بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ریمیٹنس سروے 2025 کا آغاز کیا ہے، جس کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں کہ اسے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سول نافرمانی کی کال کے تناظر میں شروع کیا گیا۔ تاہم معاشی ماہرین اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔
سٹیٹ بینک نے اس سروے کا آغاز کرتے ہوئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اس میں شامل ہونے کو کہا ہے۔
سٹیٹ بینک نے سروے کے متعلق تو بات نہیں کی البتہ اس نے تمام پاکستانی سفارت خانوں، ہائی کمیشنز اور قونصل خانوں کو متعلقہ ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کے ساتھ مختلف ذرائع ابلاغ، بشمول سوشل میڈیا، واٹس ایپ گروپس، اور کمیونٹی ویلفیئر دفاتر کے ذریعے سروے کا لنک شیئر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اس سروے کے لیے ایک سوال نامہ تمام پاکستانی سفارت خانوں کو بھیجا جا رہا ہے جس کے تحت پاکستانیوں کو متعلقہ ممالک میں رہنے کی مدت اور ترسیلات زر پاکستان بھیجنے کے متعلق معلومات کا پوچھا گیا ہے۔
معاشی تجزیہ نگار اور پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ شعبے کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’سٹیٹ بینک نے یہ سروے پی ٹی آئی کی بیرون ملک پاکستانیوں سے ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی کال کے باعث شروع نہیں کیا بلکہ یہ معمول کے مطابق کیا جا رہا ہے۔
’اس سے پہلے 2022 اور 2023 میں بھی سٹیٹ بینک نے پاکستان ریمیٹنس سروے کیا تھا، جس کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کس ملک سے کتنا ترسیلات زر آ رہا ہے تاکہ آنے والے مہینوں کے پیش گوئی کی جا سکے۔‘
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ترسیلات زر کی بینکوں میں منتقلی میں کوئی مسائل تو نہیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہو تو اسے حل کرکے ترسیلات زر کی منتقلی کو بہتر کیا جا سکے۔‘
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کچھ عرصہ قبل پارٹی قیادت کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی صورت میں سول نافرمانی تحریک کا آغاز کرنے کا کہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک کے پہلے مرحلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی جانی ہے کہ وہ ترسیلات زر کو محدود کریں۔
معاشی تجزیہ نگار شاہد اقبال کے مطابق حکومت پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایکسپورٹ بڑھنے میں ناکامی کے بعد حکومت کا تمام انحصار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر پر رہ گیا ہے۔
شاہد اقبال کے مطابق: ’ایک طرف ایکسپورٹ بڑھنے میں ناکامی، دوسری طرف چین اور متحدہ عرب امارات کے قرضوں کی قسط کو رول بیک نہ کرنے اور آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے وفد کی آمد کے باعث حکومت پر دباؤ ہے۔
’اس کے علاوہ حال ہی میں حکومت نے (یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ) یو بی ایل سے بھاری سود پر 300 ملین ڈالر کا قرضہ لیا۔ ایسی صورت حال میں حکومت کی تمام تر کوشش ہے کہ ترسیلات زر کو بڑھایا جائے، اس لیے اس طرح کے سروے کیے جاتے رہے ہیں۔
’حکومت کے پاس تمام ڈیٹا موجود ہے کہ کن ممالک میں کتنے پاکستانی مقیم ہیں اور ان میں سے کتنے ترسیلات زر پاکستان بھیجتے ہیں۔ اس لیے اس طرح کے سروے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘