گذشتہ چند ہفتوں سے پاکستان کے پڑوسی ملک چین میں انسانی نظام تنفس کو متاثر کرنے والے ہیومن میٹا نیومو وائرس (ایچ ایم پی وی) کی انفیکشن کے پھیلاؤ اور اس میں اضافے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چین سے تصایور بھی سامنے آئی ہیں، جن میں بڑی تعداد میں لوگوں کو چہروں پر ماسک پہنے ہسپتالوں اور دواخانوں میں دکھایا گیا ہے۔
ان تصاویر اور خبروں سے پاکستان میں بھی تشویش میں اضافہ ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ 2020 میں کرونا وائرس کا چین سے شروع ہونا اور باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں اموات کے علاوہ معمول کی زندگی اور معیشت کو بری طرح متاثر کرنا تھا۔
نئے وائرس (ایچ ایم پی وی) پاکستان کے لوگوں کے لیے کس حد تک خطرہ ثابت ہو سکتا ہے، اور کیا پاکستان میں سرکاری محکمے اور اہلکار وائرس کی نئی وبا کے لیے تیار ہیں یا نہیں؟ اسی بارے میں جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزارت صحت کے ترجمان ساجد شاہ سے حکومت کی تیاریوں اور الرٹنس سے متعلق دریافت کیا۔
ساجد شاہ نے دعویٰ کیا کہ اس سلسلے میں وفاقی وزرات صحت اور دوسرے متعلقہ ادارے پوری طرح تیار ہیں، جس کی بڑی وجہ ملک میں وباؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے ماضی میں بنایا گیا نظام موجود ہے بلکہ اس میں بہتری کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر وقت ہر وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکس ہیں۔ ہم نے کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور جیسے ہی بین الاقوامی ریگلولیٹری باڈیز یا عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے کوئی ہدایات آئیں گی ہم ان پر اسی طرح عمل کریں گے۔
’جہاں تک ایم ایچ پی وی وائرس کا تعلق ہے تو اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے سرکاری طور پر کوئی ہدایات جاری نہیں کی ہیں۔ البتہ ہم نے کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے کرونا وائرس آیا اور پھر ایم پاکس آیا۔ ہم وائرسز کے لیے ہمہ وقت چوکس ہیں۔
’ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی وائرس آیا تو ہماری سرحدیں محفوظ نہیں ہیں۔ وہاں پہلے سے انتظامات موجود ہیں۔ ہمارا ایک سسٹم ہے۔ کرونا بہت شدت کے ساتھ آیا تھا، جس کے بعد پوری دنیا میں ایمرجنسی لگی تھی۔ اس کے لیے بھی ہمارا سسٹم بنا تھا اور ایسا نہیں ہوتا کہ وائرس ختم ہوا اور سسٹم ختم کر دیا جائے۔‘
وائرس کی وبا کے نظام کی افادیت کی مثال دیتے ہوئے ساجد شاہ نے کہا کہ ’کہ عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں ایم پاکس وائرس کے حوالے سے ایمرجنسی لگائی تھی۔ ہم پہلے سے چوکس تھے۔ اس لیے جو چند کیسسز آئے وہ ٹریس ہو گئے۔ ہمیں اس کے لیے نئے سرے سے کوئی سسٹم بنانا نہیں پڑا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی بیماری آتی ہے تو عالمی ادارہ صحت الرٹ جاری کرتا ہے کہ بیماری کس حد تک خطرناک ہو سکتی ہے اور اسی الرٹ کے مطابق ہم اپنے سسٹم کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں ۔
’فی الحال کوئی خطرے والی بات نہیں ہے نہ کوئی کیس سامنے آیا ہے۔ یہ پرانا وائرس ہے۔ نزلے زکام کی شکل میں سامنے آتا ہے اور تب تک خطرناک نہیں جب تک یہ اپنی ہیئت تبدیل نہیں کرتا۔ اس کے بارے میں ابھی تک پوری دنیا میں عالمی ادارہ صحت نے کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔‘
ایچ ایم پی وی چین میں
گذشتہ چند روز سے شمالی چین میں ایچ ایم پی وی وائرس کے پھیلنے اور ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافے کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا تھا کہ ’سردیوں میں سانس کے انفیکشن عرج پر ہوتے ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بیماریاں کم شدید لگتی ہیں اور پچھلے سال کے مقابلے میں چھوٹے پیمانے پر پھیل رہی ہیں۔
چینی اور غیر ملکی باشندوں کے لیے چین کے سفر کو محفوظ گردانتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’میں شہریوں اور سیاحوں کو یقین دلاتا ہوں: ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ چینی حکومت چینی شہریوں اور چین آنے والے غیر ملکیوں کی صحت کا خیال رکھتی ہے۔ چین میں سفر کرنا محفوظ ہے۔‘
چین کے قومی ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن انتظامیہ نے حال ہی میں سردیوں کے موسم کے دوران ایچ ایم پی وی سمیت سانس کی انفیکشن میں اضافے کی اطلاع دی ہے، تاہم عالمی ادارہ صحت نے عالمی صحت کی ہنگامی صورت حال کا کوئی الرٹ جاری نہیں کیا۔
دوسری جانب چین کے ریاستی نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے ایک نیوز کانفرنس میں انتظامیہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ نامعلوم اصل (unknown origin) کے نمونیا کو ٹریک کرنے کے لیے ایک پائلٹ پروگرام شروع کیا گیا ہے، جس سے لیبز اور ہیلتھ ایجنسیوں کی رپورٹ اور معاملات کو زیادہ مؤثر طریقے سے منظم کرنے کو یقینی بنایا گیا ہے۔
ایچ ایم پی وی اور پاکستان
اسلام آباد میں قومی اداری صحت (این آئی ایچ) کی ترجمان نازیہ حسین نے کہا ہے کہ ایچ ایم پی وی کی صورت حال کا گہرائی سے جائزہ لیا جا رہا ہے جب کہ چین میں کووڈ 19 وائرس جیسی علامات والے ہیومن میٹا نیو مو وائرس کے پھیلاؤ اور سنگین صورت حال پر تاحال صرف سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں۔
’اس صورت حال پر چین میں سرکاری طور پر تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے ایسی صورت حال کی تصدیق نہیں کی۔
’اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت نے بھی کسی قسم کی ہنگامی حالت کا اعلان نہیں کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے باوجود نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ساری صورت حال کی سختی سے نگرانی کر رہا ہے۔
مختلف عالمی نشریاتی اداروں نے سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹس پر مبنی خبروں میں کہا کہ چین میں ایچ ایم پی وی تیزی سے پھیل رہا ہے اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اس وائرس سے متاثر مریضوں سے ہسپتال بھر گئے اور کئی لوگ جانیں کھو چکے ہیں۔
ان دعوؤں کی تاحال کوئی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی گئی۔
ہیومن میٹا نیومو وائرس ہے کیا؟
کووڈ 19، منکی پاکس، دیگر وائرسز اور بین الاقوامی بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے والے قومی صحت کے ماتحت محکمے بارڈر ہیلتھ سروسز کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق نواز کے مطابق ایچ ایم پی وی کوئی نیا وائرس نہیں اور اس کے علاج کے دستیاب ہونے کی وجہ سے یہ اتنا خطرناک نہیں، جتنا سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر طارق نواز نے کہا: ’ہیومن میٹا نیومو وائرس کوئی نیا وائرس نہیں۔ سرد موسم میں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وائرس عام طور پر کمسن بچوں، بزرگوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو متاثر کرتا ہے۔‘
’اس وائرس سے متاثر افراد میں عام فلو کے ساتھ سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کھانسی، بخار بھی اس وائرس کے باعث ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’اس وائرس کے باعث ہونے والی علامات کا علاج ممکن ہے اس لیے یہ وائرس دیگر کئی اقسام کے وائرس کی طرح جان لیوا نہیں۔
’پاکستان میں اس وائرس کے پھیلاؤ سے روکنے کے لیے وہی ایس او پیز استعمال کیے جاتے ہیں، جو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی جاتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وائرس سے متاثرہ مسافروں کا قرنطینہ کرانے، ماسک پہننے، ہاتھ دھونے اور متاثرہ مریضوں سے دور رہنے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں اس وائرس سے متاثر مریض رپورٹ نہیں ہوئے اور چین میں سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوئی۔