حکومتِ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ چین میں کرونا وائرس پھیلنے کے پانچ سال بعد ان دنوں کووڈ-19 جیسے ہیومن میٹا پینو وائرس (ایچ ایم پی وی) کے تیزی سے پھیلنے کی خبروں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ترجمان نازیہ حسین نے کہا کہ ایچ ایم پی وی کی صورت حال کا گہرائی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
نازیہ کے مطابق چین میں کووڈ-19 وائرس جیسی علامات والے ہیومن میٹا پینو وائرس (ایچ ایم پی وی) کے پھیلاؤ اور سنگین صورت حال پر تاحال صرف سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں۔
’اس صورت حال پر چین میں سرکاری طور پر تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔ چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے ایسی صورت حال کی تصدیق نہیں کی۔‘
’اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت نے بھی کسی قسم کی ہنگامی حالت کا اعلان نہیں کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے باوجود نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ساری صورت حال کی سختی سے نگرانی کر رہا ہے۔
مختلف عالمی نشریاتی اداروں نے سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹس پر مبنی خبروں میں کہا کہ چین میں ایچ ایم پی وی تیزی سے پھیل رہا ہے اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اس وائرس سے متاثر مریضوں سے ہسپتال بھر گئے اور کئی لوگ جانیں کھو چکے ہیں۔
ان دعوؤں کی تاحال کوئی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی گئی۔
ہیومن میٹا پینو وائرس کیا ہے؟
کووڈ-19، منکی پاکس، دیگر وائرس اور بین الاقوامی بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے والے قومی صحت کے ماتحت محکمے بارڈر ہیلتھ سروسز کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق نواز کے مطابق ایچ ایم پی وی کوئی نیا وائرس نہیں اور اس کے علاج کے دستیاب ہونے کی وجہ سے یہ اتنا خطرناک نہیں، جتنا سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر طارق نواز نے کہا: ’ہیومن میٹا پینو وائرس کوئی نیا وائرس نہیں۔ سرد موسم میں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وائرس عام طور پر کمسن بچوں، بزرگوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو متاثر کرتا ہے۔‘
’اس وائرس سے متاثر افراد میں عام فلو کے ساتھ سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کھانسی، بخار بھی اس وائرس کے باعث ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’اس وائرس کے باعث ہونے والی علامات کا علاج ممکن ہے اس لیے یہ وائرس دیگر کئی اقسام کے وائرس کی طرح جان لیوا نہیں۔‘
’پاکستان میں اس وائرس کے پھیلاؤ سے روکنے کے لیے وہی ایس او پیز استعمال کی جاتی ہیں جو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی جاتی ہیں۔‘
’اس وائرس سے متاثرہ مسافروں کا قرنطینہ کرانے، ماسک پہننے، ہاتھ دھونے اور متاثرہ مریضوں سے دور رہنے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں اس وائرس سے متاثر مریض رپورٹ نہیں ہوئے اور چین میں سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوئی۔