سماجی رابطوں کویب سائٹس پر گذشتہ کچھ روز سے خبریں گردش کر رہی ہیں کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کے سرکاری ایوب ٹیچنگ ہسپتال سے تقریباً 5000 کلو گرام وزنی ایم آر آئی مشین ’گم‘ ہو گئی ہے۔
یہ معاملہ تب سے شروع ہوا، جب ایبٹ آباد سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی مشتاق احمد غنی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت نے صوبائی ڈائریکٹر جنرل صحت اور سیکرٹری صحت کو ایم آر آئی مشین کی گمشدگی کی وضاحت کرنے کے لیے طلب کیا لیکن وہ کمیٹی اجلاس میں پیش نہیں ہوئے۔
معاملہ کیا ہے؟
ایوب ٹیچنگ ہسپتال سے ایم آر آئی مشین کی ’گمشدگی‘ سے متعلق افواہوں یا خبروں کے سامنے آنے کے بعد سے ہسپتال انتظامیہ تین وضاحتیں پیش کر چکی ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ مشین ’گم ہوئی نہ چوری‘ ہوئی ہے۔
ہسپتال کی جانب سے جاری ایک وضاحت میں بتایا گیا کہ ’مشین کا وزن تقریباً پانچ ہزار کلو گرام ہے اور اس کو چوری ہونے کی اطلاعات مضحکہ خیز ہیں۔‘
اسی طرح ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ’اس مشین کو کھولنے میں 15 دن کا وقت لگتا ہے اس لیے مشین کا چوری کیا جانا ناممکن ہے۔‘ جبکہ انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر ہسپتال کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا گیا ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
چوری نہیں ہوئی تو اصل میں کیا ہوا ہے؟
ایوب ٹیچنگ ہسپتال کے ترجمان ملک سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہسپتال کو 2009 میں ایرا (اتھارٹی برائے تعمیر نو و بحالی زلزلہ زدگان) کی جانب سے ایم آر آئی مشین عطیہ کی گئی تھی۔
’مشین 2019 تک استعمال ہوتی رہی، جب اس کے مقناطیس میں نقص پیدا ہوا تو ہسپتال کی ٹیم نے اس کی مرمت کے لیے تقریباً 27 کروڑ (10 لاکھ ڈالر) خرچے کا تخمینہ لگایا۔‘
ہسپتال کی جانب سے جاری وضاحت کے مطابق خیبر پختونخوا پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے ویلیو فار منی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ نے مینوفیکچرر سے تقریباً 35 کروڑ روپے (1.37 ملین امریکی ڈالر) میں نئی مشین حاصل کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نئی مشین مکمل طور پر نئے ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے ساتھ آئی، جس کے چلانے کے کوئی اخراجات نہیں تھے اور اس میں نصب مقناطیس کی پانچ سال کی وارنٹی بھی تھی۔
ہسپتال انتظامیہ کے مطابق: ’ہسپتال نے اس ڈیل میں پرانی خراب مشین کی قیمت تقریباً 11 کروڑ روپے (چار لاکھ 25 ہزار امریکی ڈالر) پر ایڈجسٹ کر لی۔‘
تاہم ہسپتال کے ڈین ڈاکٹر ثاقب ملک کی جانب سے جاری ایک وضاحتی ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ ’ہم نے پرانی مشین کو کمپنی پیکج میں اپ گریڈ کیا اور 2021 سے یہ مشین چل رہی ہے۔‘
ہسپتال انتظامیہ کے مطابق ’ایک بے بنیاد انکوائری رپورٹ غیر قانونی طور پر تعینات شدہ بورڈ آف گورنرز نے نگران دور حکومت کے دوران پیش کی، جس میں اس وقت کے ہسپتال ڈائریکٹر اور ڈین کو وضاحت کے لیے بلانے کی بھی زحمت نہیں کی گئی۔‘
ترجمان کے مطابق یہ معاملہ ابھی تک اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کے زیر تفتیش ہے اور ان کی جانب سے کوئی حتمی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔
’نئی مشین خریدی ہی نہیں ہے۔‘
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ایوب ٹیچنگ ہسپتال کی ایم آر آئی مشین کی خبریں میڈیا کی زینت بنی ہوں بلکہ ماضی میں بھی اس پر بحث ہوتی رہی ہے۔
اکتوبر 2024 میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ ن کی شہلا بانو کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں ایبٹ آباد سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی مشتاق احمد غنی نے بتایا تھا کہ ’نئی مشین تو خریدی ہی نہیں گئی۔‘
انہوں نے بتایا تھا کہ ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ پرانی مشین خراب ہوئی اور نئی خریدی گئی لیکن ایسا نہیں ہے۔ پرانی مشین کے پرزہ جات تبدیل کر کے ٹھیک کیا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ نئی مشین خریدی گئی ہے۔‘
اس وقت کے مشیر صحت احتشام خان نے اسمبلی کو بتایا تھا کہ ’2020 میں کرونا وبا کی وجہ سے کیپرا قوانین معطل کیے گئے تھے اور نئی مشین نہیں خریدی گئی بلکہ پرانی مشین کو اپ گریڈ کیا گیا تھا۔‘
اسی پر مسلم لیگ ن کی شہلا بانو نے بتایا تھا کہ ’کرونا وبا کے دنوں میں مشین خراب تھی اور اس کے ثبوت بھی میرے پاس موجود ہیں۔‘ اس پر مشیر صحت نے بتایا تھا کہ اس معاملے پر محکمہ اینٹی کرپشن کی انکوائری چل رہی ہے اور پراگریس سے اسمبلی کو آگاہ کیا جائے گا۔
ہسپتال انتظامیہ کے بیانات میں تضاد کہاں پر ہے؟
ہسپتال کی جانب سے ڈین ڈاکٹر ثاقب ملک کی ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ پرانی مشین کا مقناطیس خراب ہونے کے بعد کمپنی نے ہمیں اپ گریڈ پیکج آفر کیا۔
ڈاکٹر ثاقب ملک کے مطابق: ’پرانی مشین کا مقناطیس تبدیل کروانے کے بجائے ہم نے اسے اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی وجہ سے ہمیں اپ گریڈڈ مشین پانچ سال وارنٹی کے ساتھ ملی۔‘
تاہم انتظامیہ کی جانب سے گذشتہ روز جاری بیان میں یہ بتایا گیا کہ ’پرانی مشین کو ہم نے چار لاکھ 25000 روپے میں کمپنی کو دے کر نئی مشین کی قیمت میں ایڈجسٹ کردیا۔‘
اب یہ واضح نہیں ہے کہ اگر پرانی مشین اپ گریڈ کی گئی تو نئی مشین کی بات کہاں سے آگئی اور پرانی مشین کے صرف پرزے کمپنی کو بیچے گئے یا پوری مشین ان کو دی گئی۔
یہی سوال ہسپتال کے ترجمان سے کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’کینن کمپنی کی اپ گریڈ پالیسی میں یہ واضح ہے کہ اپ گریڈ کرنے میں وہ نئی مشین دیں گے اور پرانی مشین کی قیمت اس میں ایڈجسٹ ہو گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے پاس دسمبر 2019 میں ہسپتال کی جانب سے جاری ایک ٹینڈر کی کاپی بھی موجود ہے، جس میں نئی ایم آر ائی مشین لگانے کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ پر مختلف فرمز سے درخواستیں طلب کی گئیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ٹینڈر میں بتایا گیا ہے کہ ہسپتال میں نئی 1.5 ٹیسلا ایم آر ائی مشین لگانے کے لیے کمپنیوں سے درخواستیں مطلوب ہیں۔
اس ٹینڈر میں ایم آر آئی مشین کا ماڈل اور دیگر فیچرز بھی بتائے گئے ہیں کہ کامیاب کمپنی انہی فیچرز پر مبنی مشین نصب کرے گی، جب کہ مشین کو لگانے کے لیے جگہ ہسپتال کی جانب سے فراہم کی جائے گی۔
ہسپتال کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق انڈپینڈنٹ اردو کو کی کہ ہسپتال میں ابھی 1.5 ٹیسلا ماڈل کی ایم آر آئی مشین نصب ہے۔
ترجمان نے ٹینڈر کے حوالے سے بتایا کہ اس کے جواب میں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی، جس کی وجہ سے پھر پرانی مشین کو اپ گریڈ کر کے نئی مشین حاصل کی گئی تھی۔
اسی طرح اکتوبر 2024 میں مشتاق غنی اور اس وقت کے مشیر صحت احتشام خان کی جانب سے یہ بتایا گیا تھا کہ نئی مشین نہیں خریدی گئی بلکہ پرانی کو ہی ٹھیک کیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے ہسپتال انتظامیہ سے مذکورہ ایم آر آئی مشین کو اپ گریڈ کیے جانے اور مبینہ نقص سے متعلق دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کی درخواست ہر ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے افسران بالا کی جانب سے اجازت نہیں ہے۔‘
کینن اپ گریڈ پیکج کیا ہے؟
ایوب ٹیچنگ ہسپتال میں نصب ایم آر آئی مشین امریکہ کی کینن نامی کمپنی کی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق پرانی مشین کو کینن کی اینکور پالیسی کے تحت اپ گریڈ کیا گیا ہے۔
تاہم کینن کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود اینکور اپ گریڈیشن پالیسی کے تحت لکھا گیا ہے کہ ’صارفین کی سہولت کے لیے موجودہ پرانے ماڈل کی کینن ایم آر آئی مشین کو نئی ٹیکنالوجی کی مشین میں اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے۔‘
اس پالیسی کا مقصد کمپنی کے مطابق نئی مشین خریدنے کی قیمت، انسٹالیشن چارجز اور کنسٹرکشن چارجز سے صارفین کو بچانا ہے۔
اس پالیسی کے تحت کے موجودہ مشین کو ڈیسمنٹل کرنے اور اس میں پرزہ جات کی تبدیلی پر نئی مشین خریدنے اور لگانے پر وقت بھی کم لگتا ہے۔
تاہم اس پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ پرانی مشین کو ہٹایا نہیں جائے گا بلکہ اس میں جدید ٹیکنالوجی کے پرزے سمیت سافٹ ویئر اپ گریڈ کیا جائے گا۔