کراچی سٹاک ایکسچینج (کے ایس ای) نے سال 2024 میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جس دوران سرمایہ کاروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ گذشتہ سال کی کامیابیوں کی دیگر وجوہات کیا ہیں آئیں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
2024 میں سٹاک مارکیٹ نے ریکارڈ توڑ کارکردگی کے ساتھ ریکارڈ پوائنٹس حاصل کیے اور سرمایہ کاروں کو غیرمعمولی منافع فراہم کیا، جو اس سال کی خصوصیت رہی۔
اس دوران پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) نے اپنی تاریخ میں پہلی بار کئی اہم ریکارڈ قائم کیے، جس میں کیپیٹل مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری پر شاندار 80 فی صد منافع حاصل ہوا۔
علی اصغر ٹیکسٹائل ملز 2024 میں مارکیٹ کا سب سے زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا سٹاک تھا جہاں سٹاک میں 2774 فیصد اضافہ ہوا۔ کمپنی 1969 میں ٹیکسٹائل سپننگ یونٹ کے طور پر قائم کی گئی تھی۔
فارماسیوٹیکل، جوٹ اور ٹرانسپورٹ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شعبے تھے۔ دوسری جانب کیمیکلز، مودرابا اور ٹیکسٹائل ویونگ سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شعبے رہے۔
خام مال کی قیمتوں میں کمی، مستحکم کرنسی، مہنگائی میں کمی اور غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن کے بعد بہتر مالیاتی نتائج کی وجہ سے فارماسیوٹیکلز نے مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
یہ سال اس لحاظ سے بھی خاص تھا کہ مارکیٹ نے پہلی بار 100,000 پوائنٹس کا سنگ میل عبور کیا۔
پی ایس ایکس 100 انڈیکس نے سال بھر میں 52,807 پوائنٹس کا غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا، جو یکم جنوری کو62,451 پوائنٹس سے شروع ہو کر سال کے آخر تک 115,258 پوائنٹس تک پہنچ گیا۔
اس عرصے کے دوران حصص کی مجموعی قدر میں 5.495 ٹریلین ساڑھے پانچ کھرب روپے کا متاثر کن اضافہ ہوا۔
ترجمان سٹاک ایکسچینج عامر کانجو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کے ایس سی 100 انڈیکس نے، جو سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کا پیمانہ ہے، 2024 میں پاکستانی روپے کے لحاظ سے تقریباً 84 فی صد اور امریکی ڈالر کے لحاظ سے تقریباً 86 فی صد منافع فراہم کیا۔
انڈیکس نے سال کا اختتام 115,127 پوائنٹس پر کیا، جو کہ سال کے آغاز کا 62,451 پوائنٹس سے 52,676 پوائنٹس کا اضافہ ہے۔
سرمایہ کاروں کی تعداد میں اضافہ
2024 کے دوران پاکستان سٹاک ایکسچیج میں سرمایہ کاروں کی شرکت میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اسی حوالے سے سٹاک ایکسچینج کے مینجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) فرخ سبزواری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کل 66 ہزار سے زائد نئے اکاؤنٹس رجسٹر کیے گئے، جس سے مجموعی تعداد 349,829 ہو گئی، جو پچھلے برس کے مقابلے میں 39,130 زیادہ ہیں۔
’اب اکاؤنٹ کھولنے کا عمل مرکزی شہروں سے باہر کے علاقوں میں بھی ہو رہا ہے، اور اس عمل کو کافی حد تک آسان بنایا گیا ہے۔‘
سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اقدامات پر بات کرتے ہوئے فرخ سبزواری کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کثیر الجہتی آگاہی پروگرام شروع کیے ہیں تاکہ سرمایہ کاروں کے علم میں اضافہ کیا جا سکے اور دانش مندانہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو۔
’اس میں ’مائی پورٹ فولیو‘ ورچوئل ٹریڈنگ ایپ، بچت، سرمایہ کاری اور پورٹ فولیو کی تشکیل پر باقاعدہ سیشنز اور سال میں تین بار چھ ہفتے کے سٹاک مارکیٹ بنیادی کورس شامل ہیں۔
انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’دیگر اقدامات میں اردو اور انگریزی میں مضامین اور بلاگز کی اشاعت، پوڈکاسٹس اور ریڈیو پروگرامز کا انعقاد، اور اے سی سی اے اور سی ایف اے سوسائٹیز کے ساتھ تعاون شامل ہیں۔‘
فرخ سبزواری کا کہنا تھا: ’ہم نے مختلف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں سیشنز منعقد کیے، 600 مالیاتی اصطلاحات پر مشتمل پی ایس ایکس لغت متعارف کروائی، اور سرمایہ کاروں کی تعلیم کے لیے پی ایس ایکس واٹس ایپ سروس اور نالج سینٹر لانچ کیا۔
چیلنجز کے باوجود ریکارڈ توڑ کارکردگی؟
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کی رپورٹ کے مطابق کے ایس سی ہنڈرڈ انڈیکس میں سازگار انجینرینگ میں سب سے زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا سٹاک تھا جہاں اس کی قدر میں 552 فیصد اضافہ ہوا۔
دوسرے نمبر پر گلیکسو سمتھ کلائن تھا جس کے حصص کی قیمت میں غیر ضروری ادویات کو ڈی ریگولیشن کی وجہ سے 385 فیصد اضافہ ہوا۔
چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے پی ایس ایکس کے مینجنگ ڈائریکٹر نے بتایا کہ ’ترقی کے باوجود، پی ایس ایکس کا سرمایہ کار- آبادی تناسب صرف 0.13 فی صد ہے، جو خطے کے دیگر ممالک جیسے کہ بنگلہ دیش میں دو فی صد اور بھارت میں چھ فی صد کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
’یہ غلط فہمی بھی موجود ہے کہ سٹاک مارکیٹ صرف چند افراد کے لیے فائدہ مند ہے۔ مارکیٹ سب کے لیے کھلی ہے اور مالی تعلیم کے ذریعے افراد مارکیٹ کی کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فرخ سبزواری کا کہنا تھا کہ ’سٹاک مارکیٹ جوئے کا میدان نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں اچھی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر کے طویل مدتی دولت بنائی جا سکتی ہے۔ مستقل سرمایہ کاری اس کی کلید ہے۔‘
بقول سٹاک ایکسچینج ایم ڈی: ’کے ایس ای 100 انڈیکس 2024 میں دنیا کے دوسرے بہترین کارکردگی دکھانے والے مارکیٹ انڈیکس کے طور پر سامنے آیا۔ تین سالہ سالانہ منافع (ڈالر میں) کی بنیاد پر یہ پہلے نمبر پر رہا، جبکہ ایشیائی خطے میں پانچ اور دس سالہ سالانہ منافع کی بنیاد پر چوتھے نمبر پر ہے۔
فرخ سبزواری کے مطابق: ’2024 خاص طور پر انفرادی سرمایہ کاروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا، جنہوں نے اس ریلی کا فائدہ اٹھا کر منافع کمایا۔تاہم سٹاک مارکیٹ کا ہدف نوجوانوں، خواتین، اور مختلف پیشہ ور افراد کو سرمایہ کاروں کے طور پر شامل کرنا ہے۔
’ہم یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے سٹاک ٹریڈنگ مقابلے اور آگاہی سیشنز کا انعقاد کریں گے۔ نئے پروڈکٹس جیسے اسلامی فنانس اور پائیداری کے اختیارات متعارف کرانے اور نوجوان سرمایہ کاروں کے لیے گیمیفائیڈ ٹولز تیار کرنے کے اقدامات بھی اٹھائیں گے۔‘
پاکستان سٹاک براکر ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹیو بلال فارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سال 2024 میں سٹاک مارکیٹ میں بہترین کارکردگی مثبت اقتصادی حالات اور سود کی شرح میں کمی کی وجہ سے ہوا۔ ہر مہینے تقریباً پانچ سے آٹھ ہزار نئے سرمایہ کار سٹاک مارکیٹ میں اکاؤنٹس کھول رہے ہیں۔
’2025 کے حوالے سے بھی مارکیٹ کی حالت بہتر رہنے کی امید ہے اور مہنگائی اور سود کی شرح کے حوالے سے بھی خوش آئند پیش گوئی کی گئی ہے۔ 2025 میں تاریخی طور پر بلند قیمت سے آمدنی کا تناسب (P.E.) 8.5 تک پہنچنے کی توقع ہے، جو فی الحال یہ 5.5 ہے۔
سرمایہ کاروں کو ہر موقع کا اچھی طرح سے جائزہ لیتے ہوئے سٹاک کے انتخاب میں احتیاط برتنی چاہیے۔
بلال فارق نے مزید بتایا کہ ’2025 میں سٹاک کا انتخاب، مختلف شعبوں کا انتخاب، اور وقت کا صحیح استعمال پہلے سے زیادہ اہم ہوں گے۔ 2024 میں تقریباً چار سے پانچ نئی کمپنیز کو سٹاک مارکیٹ میں لسٹ کیا گیا اور 2025 میں یہ سلسلہ جاری رہنے کی توقع ہے، جس سے سرمایہ کاروں کو نئی کمپنیوں کے ساتھ جڑےرہنے کے مواقع ملیں گےـ‘
’بدقسمتی سے، پاکستان کی کل آبادی کا صرف تقریباً 0.1 فی صد اس وقت سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، جو کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کی بڑی وجہ مارکیٹ کی عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال ہے۔ تاہم، ہمیں امید ہے کہ آنے والے دو سے تین برسوں میں مسلسل ترقی اور سیاسی استحکام کی بدولت ہم خطے کی دیگر مارکیٹوں کے ساتھ بہتر طور پر مقابلہ کر سکیں گے۔‘
سٹاک مارکیٹ کے ماہر شہریار بٹ نے اپنا تفصیلی تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس سے پہلے پاکستان سٹاک ایکسچینج انڈر ویلیو چل رہی تھی، گورنمنٹ جو مائیکرو اکنامک سٹیبیلٹی لے کر آئی، اس سے سٹاک مارکیٹ کو بہت زیادہ سہارا ملا۔
’پاکستانی روپے کی قیمت بھی 278 پر مستحکم رہی یہ حکومت کی بڑی کامیابی ہے، تمام اکنامک انڈیکٹرز مثبت رہے، خاص طور پر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں نظر آیا۔ چارہ ماہ میں 900 ملین ڈالر سرپلس دیکھا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو پہلے تخمینہ لگایا جارہا تھا کہ سال کے اختتام پر پاکستان کو ڈالرز کی ضرورت ہو گی ساڑھے تین ارب ڈالر کے قریب خسارہ ہو گا، اب ہم سرپلس پر ہیں پاکستان کو جو بیرونی سرمایہ کاری میں مشکلات تھیں وہ کم ہوں گی جبکہ دوسری جانب جہاں تک 2025 کی بات ہے تو اگر حکومت آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر رہتے ہوئے معیشت میں اصلاحات لے کر آتی ہے تو 2025 بھی پاکستان سٹاک مارکیٹ کا سال ہو گا۔
’تاہم اس سال 13 سو ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا ہے وہ ہم حاصل نہیں کر پائیں گے پچھلے چھ ماہ کا جو ڈیٹا ہے اس کے مطابق 386 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے اور منی بجٹ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
بقول شہریار بٹ: ’2024 اس لیے بھی سٹاک کے لیے اچھا رہا کیونکہ 2024 میں کافی سارے نئے سرمایہ کار آئے اس سال ہم نے دیکھا کہ ہمارے یو اے این نمبرز 2 اعشاریہ 9 لاکھ کے قریب تھے اور سال کے اختتام پر تقریبا 60 لاکھ نئے سرمایہ کار آئے جو کہ کافی اچھا نمبر ہے اگر خطے کے دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو یہ نمبر ابھی کم ہے ہمیں امید ہے آنے والےسال میں مزید سرمایہ کار آئیں گے۔
موبائل کی فروخت میں بہتری اور مقامی طور پر اسمبل ہونے والے ٹی وی اور لیپ ٹاپ کے متوقع اجراء کی وجہ سے ایئر لنک کمیونیکیشن کے حصص میں 268 فیصد اضافہ ہوا۔ فوجی فرٹیلائزر کمپنی کے حصص میں بھی 246 فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ گیس کی قیمتوں میں کمی بتائی گئی۔ ماری پیٹرولیم کمپنی کو 800 فیصد بونس شیئر کے اعلان، شیوا وزیرستان بلاک میں پائپ لائن کا کام مکمل ہونے اور کان کنی اور آئی ٹی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی وجہ سے 220 فیصد اضافہ ہوا۔
وزیر اعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر آج کراچی میں موجود ہیں، جہاں وہ کراچی پورٹ ٹرسٹ پر قائم ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل کا دورہ، کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ایف بی آر کی کسٹمز کلیئرنس کے خودکار نظام کا افتتاح اور پاکستان سٹاک ایکسچینج کا دورہ کریں گے۔
ان کے ہمراہ وفد میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وفاقی وزرا محمد اورنگزیب، عطااللہ تارڑ، وزریر مملکت علی پرویز ملک اور کوآرڈینیٹر برائے صحت ڈاکٹر مختار بھی ہیں۔