پاکستان کی وفاقی حکومت نے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے سفارت خانوں میں ملک کی 48 نامور کاروباری شخصیات کو اعزازی سفیروں کے طور تعینات کیا ہے۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ان تمام شخصیات کا تعلق تجارتی شعبے سے ہے۔
رواں برس مارچ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے تاجروں کی ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ ’بڑے ٹیکس دہندگان اور ایکسپورٹرز کو بیرون ملک اعزازی سفیر کا درجہ دیا جائے گا۔‘
دفتر خارجہ سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق: ’یہ تمام شخصیات سرمایہ کاری کے سفیر ہوں گے اور ان کو ابتدائی طور پر نیلے پاسپورٹ دو سال کے عرصے لیے جاری ہوں گے۔‘
تعینات ہونے والے 48 سفیروں میں سینیٹر طلحہ محمود کے صاحب زادے اور اے سی ایم گروپ کے چیف ایگزیکیٹو مصطفی بن طلحہ کے علاوہ مسلم کمرشل بینک اور نشاط گروپ کے سربراہ میاں منشا کے صاحب زادے عمر منشا، ہما ارشد، حرا بٹ، صائمہ سلطانہ، علی ظفر نقوی، سید اسد حسین زیدی، آصف پیر اور دیگر شامل ہیں۔
معلومات کے مطابق اعزازی سفرا کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن 28 جون کو جاری ہونے کے فوراً بعد انہیں نیلے پاسپورٹ جاری کر دیے گئے، جن کی مدد سے اعزازی سفیر بیرون ملک سے پاکستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے آسانی سے سفر کر سکتے ہیں۔
اعزازی سفیروں کو بیرون پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات سفیروں کے برابر پروٹوکول ملے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے احکامات پر مختلف پاکستانی سفارت خانوں کو اس ضمن میں مکمل معاونت فراہم کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
اس ضمن میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے پہلے اجلاس میں بتایا تھا کہ ’اب صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے برآمدات بڑھانے کا راستہ۔
’ہماری کوشش براہ راست سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ پر ہے۔ اس لیے اب معاشی سفارت کاری دفتر خارجہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔‘
سینیئر سفارتی تجزیہ کار و صحافی شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سرمایہ کاری کے مقصد کے لیے اتنی بڑی تعداد میں اعزازی سفیروں کی تعیناتی پہلی بار کی گئی ہے۔ اس سے قبل دو یا تین اعزازی سفیر تعینات کیے جاتے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ پوری دینا میں ایسی تعیناتیاں کی جاتی ہیں، جب کہ پاکستان میں اس پریکٹس کا رجحان کم تھا۔
’لیکن اب معاشی سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے اعزازی سفیر تعینات کیے گئے ہیں، جن کی تنخواہ تو نہیں ہو گی لیکن سہولتیں دفتر خارجہ کے سفیروں کے برابر ہوں گی۔‘
سابق سفیر عبد الباسط کے مطابق: ’تاریخ میں کوئی نہ کوئی بات پہلی مرتبہ ہوتی ہے۔ اس سے پہلے اس تعداد میں اعزازی سفیر کبھی تعینات نہیں ہوئے۔ ماضی میں دو یا تین اعزازی سفیر تعینات ہوتے رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دنیا بھر میں سفارت کاری کے لیے رواج ہے کہ کسی خاص شعبے میں اعزازی سفیر تعینات کیے جائیں۔ امریکہ میں بھی اعزازی سفیر ہیں۔
’لیکن سب کے شعبے مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی یوکرین کے لیے ہے تو کوئی جنوبی ایشیا کے لیے، لیکن پاکستان میں 48 کے 48 سرمایہ کاری کے سفیر ہیں۔‘
ان کے خیال میں مذکورہ سفیروں کے شعبے مختلف ہونا چاہیے تھے، کسی کو زراعت کی سرمایہ کاری میں ہونا چاہیے تھا اور کسی کو دوسری کسی صنعت میں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق پاکستانی سفیر نے سوال اٹھایا کہ اعزازی سفیروں کو سرکاری پاسپورٹ دینے کی کیا ضرورت تھی؟
انہوں نے کہا کہ ’بڑی کاروباری شخصیات کو سبز پاسپورٹ پر بھی ہر ملک کے ویزے لگ جاتے ہیں۔ ان کے لیے ویزے لینا کوئی مشکل نہیں۔
’لیکن سرکاری پاسپورٹ کی جو تھوڑی بہت قدر تھی وہ کم نہ ہو جائے۔ اب بیرون ملک پاکستان کے ہر مشن میں ان اعزازی سفیروں کو پروٹوکول دیے جائیں گے۔‘
’میرے خیال سے پانچ اعزازی سفیر کر دیتے۔ خطے کے حساب سے کر دیتے یعنی ایک یورپ کے لیے، ایک جنوبی ایشیا کے لیے، ایک افریقہ کے لیے اور امریکہ کے لیے۔ اس طرح کر سکتے تھے لیکن 48 سفیر بہت زیادہ ہیں۔‘
سرمایہ کاری کے لیے اعزازی سفیر کی تعیناتی پہلی بار نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں بھی وزیراعظم شہباز شریف نے لندن میں مقیم پاکستانی بزنس مین ذیشان شاہ کو اعزازی سفیر مقرر کیا تھا۔
اسی طرح کاروباری وجوہات کی بنا پر پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں 2019 میں علی جہانگیر صدیقی کو غیر ملکی سرمایہ کاری کا اعزازی سفیر (ایمبیسیڈر ایٹ لارج) تعینات کیا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تین اعزازی سفیر تعینات کیے گئے تھے، جن میں ماہر چشم ناصر علی خان، خالد احمد اور ضیا اصفہانی شامل تھے۔
اس وقت کمیٹی میں پیش کی گئی معلومات کے مطابق اعزازی سفیروں نے بیرون ملک تمام دورے حکومتی اخراجات پر کیے تھے۔