190 ملین پاؤنڈ ریفرنس: عمران خان کو 14، بشریٰ بی بی کو سات سال قید

عمران خان پہلے ہی سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ضمانت پر تھیں، جنہیں کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں خصوصی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس (القادر ٹرسٹ کیس) میں جمعے کو سابق وزیراعظم عمران خان کو 14 سال اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات سال قید کی سزا سنا دی ہے، جسے ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان پہلے ہی سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ضمانت پر تھیں تاہم نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق فیصلہ آنے کے بعد بشریٰ بی بی کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔

سرکاری ٹی وی کے مطابق احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے عمران خان کو قید کے ساتھ 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ بشریٰ بی بی کو پانچ لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی جبکہ القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جمعے کو میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ’عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں اور یہ بالآخر ختم ہو جائے گا۔‘

مزید کہا گیا کہ ’تمام شواہد اور گواہوں کے بیانات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کوئی بدانتظامی اور غلط کام نہیں ہوا۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی محض ٹرسٹی ہیں اور ان کا اس معاملے سے مزید کچھ لینا دینا نہیں۔‘

عدالتی فیصلے کے مطابق بشریٰ بی بی پر بدعنوانی اور بدعنوان طرزعمل کی سہولت کاری ثابت ہوئی ہے، جس کے باعث انہیں سات سال قید بامشقت سنائی گئی ہے۔

اس سے قبل یہ فیصلہ تین بار اعلان کیے جانے کے بعد موخر کیا گیا تھا۔

رواں ماہ 13 جنوری کو جج ناصر جاوید رانا نے کہا تھا کہ وہ ملزمان کی کمرہ عدالت میں عدم موجودگی کے باعث فیصلہ نہیں سنا رہے اور نئی تاریخ آج (17 جنوری) کی دی تھی۔

اس کیس کی 100 سے زائد سماعتیں ہوئی ہیں جبکہ 35 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے ہیں۔

احتساب عدالت نے گذشتہ ماہ 18 دسمبر کو اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

190 ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے؟

نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے سابق وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع 458 کنال، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی، جس کے بدلے میں مبینہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکتوبر 2022 میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی تھیں۔ نیب دستاویزات کے مطابق تین دسمبر 2019 کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے)  کی جانب سے پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019 کو ریئل سٹیٹ ڈیویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا، جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔

نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف تین ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت تین دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدے اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا کہ بطور کابینہ رکن آپ نے تین دسمبر 2019 کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر 2 پر فیصلہ کیا۔‘

نوٹس کے مطابق کابینہ اجلاس میں آئٹم نمبر 2 کا عنوان تھا: ’احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ۔‘

اس معاملے پر ایجنڈا آئٹم وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ (شہزاد اکبر) نے پیش کیا تھا اور بریفنگ دینے کے ساتھ کابینہ سیکریٹری کو ہدایت کی تھی کہ ریکارڈ کو سیل کردیا جائے۔

نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض کو بھی طلب کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست