چین کی آبادی میں مسلسل کمی، 2024 میں بھی تعداد گھٹ گئی

چین کی شرح پیدائش میں کمی کو روکنے کی حالیہ کوششیں رجحان کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔

دو اگست، 2022 کو بیجنگ میں ایک بچہ پارک میں کھیل رہا ہے (اے ایف پی)

چینی حکام نے جمعے کو بتایا کہ 2024 میں ملکی آبادی مسلسل تیسرے سال کم ہوئی ہے۔

چین کے قومی ادارہ برائے شماریات (این بی ایس) کے مطابق پچھلے سال چین کی آبادی 13 لاکھ 90 ہزار کم ہوئی، جس کے بعد یہ مجموعی طور پر 1.408 ارب رہ گئی، کیونکہ اموات کی تعداد پیدائشوں سے زیادہ رہی۔

جنوری 2024 میں جاری کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2023 میں آبادی 20.8 لاکھ کم ہو کر 1.409 ارب تک پہنچ گئی تھی۔

یہ کمی گذشتہ سال کے مقابلے میں دو گنا تھی، جب چین میں 60 سال بعد پہلی بار آبادی میں کمی ہوئی۔

چین میں کم ہوتی پیدائش کی شرح پر قابو پانے کی حالیہ کوششیں طویل مدتی رجحان کو بدلنے میں ناکام رہی ہیں۔ این بی ایس نے تسلیم کیا ہے کہ ملک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

جمعے کو جاری کردہ رپورٹ میں بیورو نے کہا: ’ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ بیرونی ماحول کے منفی اثرات بڑھ رہے ہیں۔ اندرونی طلب ناکافی ہے۔

’کچھ ادارے پیداوار اور کام کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور معیشت اب بھی مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہے۔‘

ادارے نے رپورٹ کیا کہ 2024 میں چین میں 95.4 لاکھ بچے پیدا ہوئے جو 2023 کے 90.2 لاکھ بچوں کے مقابلے میں زیادہ تھے۔

پیدائش کی شرح 2024 میں بڑھ کر 6.77 فی 1,000 افراد ہو گئی، جب کہ 2023 میں یہ 6.39 فی 1,000 افراد تھی۔

2023 میں کووڈ 19 وبا کے خاتمے کے بعد شادیوں کی تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں 12.4 فیصد بڑھ گئی۔

اس کی وجہ سے 2024 کے پہلے چھ ماہ میں کچھ علاقوں میں پیدائش کی شرح میں مختصر مدت کے لیے اضافہ ہوا۔

گذشتہ سال چین میں ’ڈریگن کا سال‘ تھا جو ملک میں خوش قسمت سمجھا جاتا ہے اور روایتی طور پر ایشیا بھر میں بچوں کی پیدائش میں قدرے اضافے سے جڑا ہوا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مجموعی رجحان نیچے کی طرف ہے۔ پچھلے سال اموات کی تعداد کم ہو کر 1.093 کروڑ ہو گئی جو 2023 میں 1.11 کروڑ تھی۔

فودان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز کے پروفیسر رین یوان نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ’درمیانی اور طویل مدت میں ہمارے ملک میں بچے پیدا ہونے والے بچوں سالانہ تعداد کم ہوتی رہے گی۔‘

چین کی پیدائش کی شرح کئی دہائیوں سے کم ہو رہی ہے، جس کی بڑی وجہ 1980 سے 2015 تک نافذ رہنے والی ’ایک بچے کی پالیسی‘ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی ہے۔

2016 میں چین نے باضابطہ طور پر ’ایک بچے کی پالیسی‘ ختم کر دی جو ملک کی آبادی پر قابو پانے کے لیے دہائیوں تک نافذ رہی۔

تاہم اس پالیسی نے آبادی کے تناسب کو بگاڑ دیا کیوں کہ ثقافتی طور پر لڑکوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔

ماہرین کے مطابق بچے کی دیکھ بھال اور تعلیم کے زیادہ اخراجات، ملازمت کی غیر یقینی صورت حال اور سست معیشت نے کئی نوجوان چینیوں کو شادی اور خاندان کے آغاز سے روک دیا ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خواتین کے گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنے کی روایتی توقعات اور صنفی امتیاز پیدائش کی شرح میں کمی کے اہم عوامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یونیورسٹی آف مشی گن کے سوشیالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر یُن ژو نے روئٹرز کو بتایا کہ ’چین کی آبادی میں کمی کی بڑی وجہ نظام کے گہرے مسائل ہیں۔

’جب تک بنیادی ساختی تبدیلیاں نہیں کی جائیں گی، جیسے سماجی تحفظ کے نظام کو بہتر بنانا اور صنفی امتیاز کا خاتمہ، آبادی میں کمی کے رجحان کو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘

2024 میں چینی حکام نے پیدائش کی شرح بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ دسمبر میں یونیورسٹیوں کو نصاب میں شادی اور ’محبت کی تعلیم‘ شامل کرنے کی ترغیب دی گئی تاکہ شادی، محبت، بچوں کی پیدائش اور خاندان کے حوالے سے مثبت خیالات کو فروغ دیا جا سکے۔

نومبر میں ریاستی کونسل نے مقامی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ آبادی کے بحران سے نمٹنے کے لیے وسائل مختص کریں اور ’مناسب عمر‘ میں بچے پیدا کرنے اور شادی کے احترام کو فروغ دیں۔

چین میں تولیدی عمر کی خواتین کی تعداد صدی کے اختتام تک دو تہائی سے زیادہ کم ہو کر 10 کروڑ سے نیچے آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

دوسری طرف 2024 میں چین کی معیشت پانچ فیصد بڑھی جو حکومت کی توقعات کے مطابق تھی لیکن آنے والے سالوں میں مجموعی قومی پیداوار کی ترقی مزید سست ہونے کا امکان ہے۔

آبادی کے بحران کے جواب میں بیجنگ نے ریٹائرمنٹ کی لازمی عمر کو بتدریج بڑھانے کے اقدامات کیے۔ مردوں کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے بڑھا کر 63 کر دی گئی۔

وہ خواتین، جو انتظامی اور تکنیکی عہدوں پر کام کر رہی ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سے بڑھا کر 58 کر دی گئی جب کہ دیگر ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 55 برقرار رکھی گئی ہے۔

آبادی کے بحران کا سامنا کرنے میں چین اکیلا نہیں۔ جاپان، جنوبی کوریا، اور تائیوان بھی انہی عوامل کے باعث آبادی میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں جن میں امیگریشن پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔

رپوٹ کی تیاری میں خبر رساں اداروں سے اضافی مدد لی گئی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا