ٹک ٹاک نے قومی سلامتی کی بنیاد پر انتہائی مقبول ایپ پر پابندی عائد کرنے کا قانون نافذ ہونے کے بعد اتوار کے روز امریکہ میں اپنی سروس بحال کر دی ہے۔
ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس تبدیلی کو ممکن بنانے کا کریڈٹ دیا ہے، حالانکہ صدر جو بائیڈن کی سبکدوش ہونے والی انتظامیہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ کسی بھی پابندی کو نافذ نہیں کرے گی۔
ٹک ٹاک کو ہفتے کی رات امریکہ میں بند کر دیا گیا تھا کیونکہ اس کے چینی مالکان بائٹ ڈانس کے لیے اپنے امریکی ذیلی کمپنی کو غیرچینی خریداروں کو فروخت کرنے کی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی تھی۔
اس سے قبل اتوار کے روز جب لاکھوں مایوس صارفین نے خود کو ایپ استعمال کرنے سے قاصر پایا تو ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کے تحت پابندی میں تاخیر کی جائے گی تاکہ ’معاہدہ کرنے‘ کے لیے وقت مل سکے۔
انہوں نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں امریکہ سے ٹک ٹاک میں حصہ داری لینے کی اپیل بھی کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کو ایک مشترکہ منصوبے میں 50 فی صد ملکیت حاصل ہو، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ ایپ کی قیمت ’سیکڑوں ارب ڈالر – شاید کھربوں‘ تک بڑھ سکتی ہے۔
ٹرمپ، جنہوں نے اس سے قبل ٹک ٹاک پر پابندی کی حمایت کی تھی اور اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران اس پابندی کو قابل عمل بنانے کے لیے اقدامات بھی اٹھائے تھے، نے لکھا: ’ایسا کرکے ہم ٹک ٹاک کو بچاتے ہیں، اسے اچھے ہاتھوں میں رکھتے ہیں۔‘
ٹرمپ کے بیان کے بعد ایکس پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں ٹک ٹاک نے کہا کہ وہ ’سروس بحال کرنے کے عمل میں ہے۔
’ہم صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے سروس فراہم کنندگان کو ضروری وضاحت اور یقین دہانی کرائی کہ انہیں 170 ملین سے زائد امریکیوں کو ٹک ٹاک فراہم کرنے پر کسی جرمانے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘
اتوار کی سہ پہر تک امریکہ میں دوبارہ آن لائن ہونے والی ٹک ٹاک نے ٹرمپ کی جانب سے ایپ کی جزوی امریکی ملکیت کے مطالبے کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔
ٹک ٹاک نے قومی سلامتی کی بنیاد پر انتہائی مقبول ایپ پر پابندی عائد کرنے کا قانون نافذ ہونے کے بعد اتوار کے روز امریکہ میں اپنی سروس بحال کر دی ہے۔
ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس تبدیلی کو ممکن بنانے کا کریڈٹ دیا ہے، حالانکہ صدر جو بائیڈن کی سبکدوش ہونے والی انتظامیہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ وہ کسی بھی پابندی کو نافذ نہیں کرے گی۔
ٹک ٹاک کو ہفتے کی رات امریکہ میں بند کر دیا گیا تھا کیونکہ اس کے چینی مالکان بائٹ ڈانس کے لیے اپنے امریکی ذیلی کمپنی کو غیرچینی خریداروں کو فروخت کرنے کی ڈیڈ لائن ختم ہو گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل اتوار کے روز جب لاکھوں مایوس صارفین نے خود کو ایپ استعمال کرنے سے قاصر پایا تو ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کے تحت پابندی میں تاخیر کی جائے گی تاکہ ’معاہدہ کرنے‘ کے لیے وقت مل سکے۔
انہوں نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں امریکہ سے ٹک ٹاک میں حصہ داری لینے کی اپیل بھی کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کو ایک مشترکہ منصوبے میں 50 فی صد ملکیت حاصل ہو، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ ایپ کی قیمت ’سیکڑوں ارب ڈالر – شاید کھربوں‘ تک بڑھ سکتی ہے۔
ٹرمپ، جنہوں نے اس سے قبل ٹک ٹاک پر پابندی کی حمایت کی تھی اور اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران اس پابندی کو قابل عمل بنانے کے لیے اقدامات بھی اٹھائے تھے، نے لکھا: ’ایسا کرکے ہم ٹک ٹاک کو بچاتے ہیں، اسے اچھے ہاتھوں میں رکھتے ہیں۔‘
ٹرمپ کے بیان کے بعد ایکس پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں ٹک ٹاک نے کہا کہ وہ ’سروس بحال کرنے کے عمل میں ہے۔
’ہم صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے سروس فراہم کنندگان کو ضروری وضاحت اور یقین دہانی کرائی کہ انہیں 170 ملین سے زائد امریکیوں کو ٹک ٹاک فراہم کرنے پر کسی جرمانے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘
اتوار کی سہ پہر تک امریکہ میں دوبارہ آن لائن ہونے والی ٹک ٹاک نے ٹرمپ کی جانب سے ایپ کی جزوی امریکی ملکیت کے مطالبے کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔