فارم 45 اور47 کی جانچ کے لیے تحقیقات کرنی ہوں گی: جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی انتخابی دھاندلی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’فارم 45 یا 47 دونوں میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہو گا۔‘

8 فروری 2024 کو کوئٹہ میں انتخابات کے اختتام پر پولنگ عملہ ووٹوں کی گنتی کر رہا ہے (اے ایف پی)

سپریم کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی انتخابی دھاندلی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’فارم 45 یا 47 دونوں میں اگر فرق ہے تو کوئی ایک صحیح ہو گا۔ فارم کو جانچنے کے لیے پوری تحقیقات کرنی ہوں گی۔‘

عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات پر تیاری کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

پیر کو سپریم کورٹ میں آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں چھ رکنی آئینی بینچ نے کی۔

بینچ میں دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

وکیل حامد خان نے عدالت میں کہا کہ ’آرٹیکل 184(3) میں دائرہ اختیار دیا گیا ہے یا نہیں۔ جو آٹھ فروری کو ہوا تھا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن جانبدار ہے تو متعلقہ فورم پر جانا چاہیے تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہرامیدوار کے نوٹیفکیشن کے لیے عدالت کو آپ کو بتانا ہو گا۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے حامد خان سے کہا ’حامد صاحب آپ آئندہ سماعت پر تیاری کے ساتھ آئیں۔‘

حامد خان نے جواباً کہا کہ ’میں صرف اعتراضات دور کرنے آیا تھا آپ میرٹ پر بات کر رہے ہیں۔‘

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ ’اعتراضات آپ کی استدعا کو دیکھ کر ہی ختم کریں گے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا خیبرپختونخواہ سے بلوچستان تک  سارا الیکشن ہی غلط تھا؟ ہر حلقے کی علیحدہ انکوائری ہو گی۔ ہر امیدوار اپنے حلقے کے الزامات کا بتائے گا، پہلے بھی انتخابات میں دھاندلی کا ایشو اٹھا تھا، انکوائری کے لیے آرڈیننس لانا پڑا تھا۔  جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہمارے پاس نہیں تھا اس لیے آرڈیننس بنانا پڑا۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے مزید کہا کہ ’184/3 کے تحت انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کا دائرہ اختیار عدالت کا نہیں ہے۔‘

وکیل حامد خان نے اس موقع پر کہا کہ ’یہ اس عدالت کی کمزوری ہے کہ ابھی تک سوموٹو نہیں لے سکی۔‘ جسٹس جمال خان مندوخیل نے انہیں کہا کہ ’حامد صاحب آپ سینیر وکیل ہیں الفاظ کا چناؤ دیکھ کر کریں۔‘

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’اس معاملے پر ڈپٹی سپیکر نے بھی ایک کمیٹی بنائی ہے۔‘ جسٹس مندو خیل نے کہا کہ ’ہمارا اس کمیٹی سے کوئی سروکار نہیں۔‘

پی ٹی آئی کی درخواست میں استدعا:

گذشتہ برس آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد مارچ میں عمران خان نے ملک بھر میں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ کے غیر جانبدار حاضر سروس ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

جوڈیشل کمیشن عام انتخابات اور اس کے نتائج کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں مزید استدعا کی گئی تھی کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے تک وفاق اور پنجاب میں حکومتی تشکیل کے اقدامات کو معطل کیا جائے اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان