خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں حکام کے مطابق شر پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے اور ضلعے کی تحصیل لوئر کرم کے مختلف علاقوں میں شرپسندوں کے ٹھکانوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔
پولیس کے مطابق یہ آپریشن بگن، مندوری، اور اوچت کے علاقوں میں جاری ہے اور اس میں پاکستان فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے ادارے علاقے میں موجود ہیں۔
علاقہ مکینوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بگن میں کرفیو نافذ ہے اور کسی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں، جب کہ سکیورٹی فورسز نے مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
بگن کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علاقے میں گذشتہ دو دنوں سے وقفے وقفے سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
تاہم پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی ار کی جانب سے آپریشن کے حوالے سے مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
ضلع کرم میں اتوار کو خیبر پختونخوا حکومت نے شرپسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا اور کمشنر کوہاٹ ڈویژن معتصم بااللہ شاہ کے مطابق یہ آپریشن مقامی آبادی میں گھسنے والے شرپسندوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے لوئر کرم کے علاقے بگن میں سکیورٹی فورسز کے حصار میں پاڑہ چنار جانے والے تقریباً 30 خوراکی و دیگر سامان سے بھرے ٹرکوں پر حملہ اور بعد میں انہیں لوٹا بھی گیا تھا۔
اس واقعے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانے میں درج ہو چکا ہے، جس میں 24 افراد کو کانوائے پر حملے اور گاڑیوں کے جلنے اور لوٹنے میں نامز کیا گیا ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس کوہاٹ ریجن عباس مجید مروت نے گذشتہ روز آپریشن کے حوالے سے بتایا تھا کہ امن معاہدے کے بعد کانوائے کو گزارا جا رہا تھا جس پر شر پسندوں نے حملہ کیا اور اسی وجہ سے اب ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
متاثرین کے لیے کیمپس
ضلع کرم کے آپریشن والے علاقوں کے متاثرین کے لیے ضلع ہنگو کے علاقے ٹل میں کیمپس قائم کیے گئے ہیں، تاہم ہنگو کے ضلع انتظامیہ کے مطابق ابھی تک کوئی متاثرہ فیملی کیمپ نہیں پہنچی ہے۔
ہنگو کے ڈپٹی کمشنر گوہر زمان وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومتی ہدایات کی روشنی میں پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ ضلعی انتظانیہ مکمل تعاون کر رہی ہے اور اس سلسلے میں متوقع عارضی نقل مکانی کے لیے قائم کے جانے والے کیمپ کے لیے 22 ٹرک سامان نان فوڈ آئٹمز ضلع ہنگو پہنچا دیے گئے ہیں۔
گوہر زمان کے مطابق: ’ہنگو کی ضلعی انتظامیہ نے اس حوالے سے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ چار مختلف مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں عارضی طور پر متاثرین کو ٹھرانے کے لیے بجلی، پانی۔ واش روم وغیرہ کی سہولتیں میسر ہیں۔‘
تاہم گوہر زمان کے مطابق آپریشن شروع ہونے کے بعد اب تک کوئی بھی فیملی کیمپ یا ضلع کے کسی دوسرے علاقے میں نقل مکانی کر کے نہیں پہنچی۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دو مہینے پہلے بگن میں جو واقعات ہوئے تھے، ان کی وجہ سے کچھ لوگوں نے نقل مکانی کی تھی، جو اب بھی ضلعی انتظامیہ کے زیر انتظام ٹل ڈگری کالج میں قائم کیمپ میں موجود ہیں۔
گوہر زمان کے مطابق، ’تقریباً ایک مہینہ قبل آئے ہوئے بگن کے متاثرین کی تعداد 300 سے 500 ہے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی ضلعی انتظامیہ جر رہی ہے،‘
متاثرین کہاں گئے؟
لوئر کرم کے علاقے مندوری کے رہائشی محمد اسلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بگن کی مرکزی شاہراہ پر داخلی راستے پر چیک پوسٹ قائم کی گئی ہے اور کسی کو اندر یا باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ علاقے میں ہیلی کاپٹرز کی پروازیں بھی نظر آرہی ہیں اور گذشتہ روز کچھ علاقوں میں شیلنگ بھی کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد اسلام نے بتایا: ’کچھ علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن وہ سینٹرل کرم اور آس پاس کے علاقوں میں رشتہ داروں کے ہاں گئے ہیں۔‘
بگن میں اشیاہ ضرورت کے حوالے سے محمد اسلام نے بتایا کہ گاؤں کے بیچ ایک راستہ ہے، جس کو اشیا ضرورت لانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیفنس روڈ سمیت پورے علاقے میں سکیورٹی فورسز کی نقل وحرکت موجود ہے، جب کہ مرکزی ٹل پاڑا چنار شاہراہ مکمل طور پر آمدورفت کے لیے گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے بند ہے۔
حکومت کی جانب سے اپر کرم میں کسی قسم کی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وقتاً فوقتاً ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سامان بھیجوایا جا رہے ہے۔
ضلع کرم کشیدگی
ضلع کرم میں گذشتہ سال 21 نومبر کو حالات تب کیشدہ ہوئے جب لوئر کرم کے علاقے بگن میں گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں کم از کم 42 افراد جان سے گئے تھے۔
اسی واقعے کے اگلے روز 22 نومبر کو بگن کے مرکزی بازار اور قریبی گھروں کو مشتعل مسلح افراد نے جلائے تھے جس کے بعد فریقین کے مابین جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
رواں سال جنوری کے اوائل میں سرکاری سرپرستی میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد ہوا اور فریقین نے ایک امن معاہدہ کیا لیکن معاہدے کے کچھ روز بعد خوراکی سامان کے قافلے کے انتظامات کے لیے آئے ہوئے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود پر حملہ ہوا جس میں وہ زخمی ہوگئے۔
اس کے بعد مرکزی شاہراہ بھی بند رہی جبکہ بگن کے متاثرین نے مرکزی شاہراہ پر اپنے مطالبات کے لیے دھرنا بھی دے رکھا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ بگن بازار اور گھروں کو نقصان کا معاوضہ دیا جائے۔