کرم میں ممکنہ آپریشن کی خبریں، صوبائی حکام کا تصدیق یا تردید سے گریز

گذشتہ دو ماہ سے شدید جھڑپوں کی زد میں آئے ہوئے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ممکنہ آپریشن سے قبل عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے کیمپ قائم کیے جانے کی خبریں گردش میں ہیں، تاہم صوبائی حکام نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

17 جنوری 2025 کی اس تصویر میں فرنٹیئر کانسٹیبلری اور فوج کے اہلکار ایک امدادی سامان کے قافلے پر حملے کے اگلے روز ضلع کرم میں موجود ہیں (اے ایف پی)

گذشتہ دو ماہ سے شدید جھڑپوں کی زد میں آئے ہوئے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ممکنہ آپریشن سے قبل عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے کیمپ قائم کیے جانے کی خبریں گردش میں ہیں، تاہم صوبائی حکام نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

جمعے کو مبینہ طور پر کرم کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا: ’اطلاع دی جاتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لوئر کرم کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ متوقع آپریشن کے دوران متاثرہ آبادی کی حفاظت اور مدد کو یقینی بنانے کے لیے ضلع کرم کے عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے درج ذیل مقامات پر کیمپ قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔‘

اس نوٹیفکیشن میں ’گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج، گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج، ریسکیو 1122 کمپاؤنڈ اور جوڈیشل بلڈنگ کو ٹل کے علاقے میں ممکنہ مقامات‘ کے طور پر تجویز کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے اس نوٹیفکیشن کی تصدیق کے لیے کمشنر کوہاٹ ڈویژن معتصم بااللہ، ڈپٹی کمشنر کرم اشفاق خان، ضلعی پولیس سربراہ احمد شاہ اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سے متعدد مرتبہ رابطہ کیا، تاہم کسی نے بھی اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے نمائندہ اظہار اللہ کو یہ بھی بتایا کہ ’نوٹیفکیشن ضلعی پولیس سربراہ کے دفتر کو کاپی نہیں کیا گیا اور ہمیں اس حوالے سے ابھی کوئی معلومات نہیں ہیں۔‘

لوئر کرم کے رہائشیوں میں ان غیر مصدقہ خبروں کی وجہ سے تشویش پائی جا رہی ہے کیونکہ ابھی تک ضلعی انتظامیہ یا کسی متعلقہ ادارے کی جانب سے انہیں علاقہ خالی کرنے یا ممکنہ آپریشن کے بارے میں کسی قسم کی اطلاع نہیں دی گئی۔

یہ خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں، جب رواں ہفتے ہی کرم میں عسکریت پسندوں کے ایک امدادی سامان کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں 10 افراد جان سے چلے گئے جب کہ پانچ ڈرائیوروں کے اغوا کی بھی اطلاعات سامنے آئیں۔

اس سے قبل بھی رواں ماہ ایک قافلے پر حملے کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہوئے تھے، جن میں علاقے کے ایک ڈپٹی کمشنر بھی شامل تھے۔

ضلع کرم کافی عرصے سے قبائلی اور فرقہ وارانہ جھڑپوں کی زد میں ہے۔ گذشتہ برس 21 نومبر کو مسلح افراد نے مسافروں کے ایک قافلے پر حملہ کیا تھا، جس میں 50 سے زائد افراد کی جان چلی گئی تھی۔

اس حملے کے بعد ہونے والے پر تشدد واقعات کے نتیجے میں کرم کے مرکزی شہر پاڑہ چنار کو صوبائی دارالحکومت پشاور سے ملانے والی مرکزی سڑک بند کر دی گئی، جس کے نتیجے میں علاقے میں ادویات، خوراک اور ایندھن کی قلت پیدا ہوگئی جب کہ پرتشدد واقعات میں 100 سے زائد اموات ہوئیں۔

یہ تشدد اُس امن معاہدے کے باوجود جاری ہے جو یکم جنوری کو متحارب قبائل کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت فریقین نے دو ہفتے کے اندر مورچے ختم کرنے اور بھاری ہتھیار حکام کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان