صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے پولیس کی رپورٹ پر 40 ڈاکوؤں کی 25 سے 50 لاکھ روپے سر کی قیمت مقرر کی ہے۔
ان میں سے 20 ڈاکوؤں کے سر کی قمیت 50 لاکھ جب کہ باقی 20 کی 25 لاکھ روپے قمیت مقرر کی گئی ہے۔
محکمہ داخلہ اس سے پہلے کچے کے 20 ڈاکوؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کر چکا ہے۔
سر کی قیمت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟
اس حوالے سے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) رحیم یار خان رضوان گوندل نے بتایا کہ ڈاکوؤں کے ’سر کی قیمت مقرر کرنے کا ایک فارمولہ ہوتا ہے جو 2016 میں آئی جی پنجاب کے جاری کردہ سٹینڈنگ آرڈر میں وضع کیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا ’سر کی قیمت کیس کی نوعیت پر منحصر ہے، جیسے اگر ایک مفرور یا اشتہاری کا نام قتل کی ایف آئی آر میں آیا ہے تو یہ وضع کر دیا گیا کہ اس کے چار پوائنٹس ہیں۔
’اسی شخص نے اگر ڈکیتی بھی کی ہے تو اس کے سکور میں دو پوائنٹس کا اضافہ ہو جائے گا، یعنی جتنے اس شخص پر مقدمے ہیں اور جو ان جرائم کی نوعیت ہے اس کی سنگینی کے حساب سے سکور میں اضافہ ہو تا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’فرض کریں کسی کے 20 پوائنس بنے ہیں تو اس پر سر کی قیمت 10 سے 14 لاکھ ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سٹینڈنگ آرڈر کے وضع کردہ اصولوں کے تحت اگر حکومت پنجاب یا پنجاب پولیس سمجھتی ہے کہ اشتہاری کی مجرمانہ سرگرمیاں اچانک بڑھ گئی ہیں تو اس پر خصوصی انعامی رقم یا سر کی قیمت لگائی جا سکتی ہے جس کا تعین متعلقہ ڈی پی او یا سی پی او کی سفارشات پر کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت پنجاب نے ایک اشتہاری پر ایک کروڑ روپے انعامی رقم رکھی لیکن فارمولے کے مطابق اس کی انعامی رقم 60 لاکھ بنتی تھی۔
’تاہم متعلقہ ڈی پی او نے سفارش کی تھی کہ یہ شخص انتہائی خطرناک ہے اس لیے اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ ہونی چاہیے۔
’اس رقم کو بڑھانے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ انعام حاصل کرنے کے لیے بہت سے مخبر اس شخص تک پہنچنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔‘
رضوان گوندل نے بتایا کہ متعلقہ پولیس افسر کی سفارش یا رپورٹ پر محکمہ داخلہ میں ایک خصوصی میٹنگ ہوتی ہے جس میں انچارج منسٹر، محکمہ داخلہ اور پولیس کے اہلکار شرکت کر کے سفارش کا جائزہ لیتے ہیں اور انعامی رقم کی منظوری دیتے ہیں۔
کچے کے ڈاکوؤں کر سر کی قیمت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا: ’ان میں زیادہ تر ڈاکو قتل، قتل اور ڈکیٹی، اغوا برائے تاوان، پولیس پر حملہ اور دیگر سنگین جرائم کے مرتکب ہیں اور ان کا سکور 60 پوائنٹس یا اس سے اوپر بنتا ہے۔
’ان کے تمام جرائم کی تفصیلات ، سکورنگ اور سفارشات کے ساتھ آئی جی پنجاب کو بھیجی گئیں جہاں پر ان تفصیلات اور سفارشات کا جائزہ لیا گیا اور پھر محکمہ داخلہ پنجاب نے ایک میٹنگ میں ان سفارشات کی بنیاد پر سر کی قیمت کی منظوری دے دی۔'
ریڈ بک اور بلیک بک
محکمہ داخلہ کے ترجمان توصیف صبیح گوندل نے بتایا کہ پولیس کی دو کاپیاں ہوتی ہیں جس میں ایک بلیک بک اور دوسری ریڈ بک کہلاتی ہے۔
’بلیک بک پولیس کے انویسٹی گیشن ونگ کے لیے ہوتی ہے جس میں انویسٹی گیشن ونگ کو سنگین جرائم میں مطلوب تمام اشتہاری ملزمان کی فہرست شامل ہوتی ہے جبکہ ریڈ بک میں وہ اشتہاری یا دہشت گرد شامل ہیں جو انسداد دہشت گردی محکمے (سی ٹی ڈی) کو مطلوب ہیں۔‘
کچے کے ڈاکوؤں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’جب اگست میں کچے کے علاقے میں پولیس کے 12 اہلکاروں کی جان لی گئی تو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر فیصلہ کیا گیا کہ وہاں کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت میں اضافہ کیا جائے جس کے بعد سرفہرست 20 ڈاکؤں کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپیہ فی کس مقرر کی گئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا مرحلہ تھا اور اس وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں باقی ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کا تعین بھی کیا جائے گا، جس کے بعد اب یہ فہرست آئی ہے جس میں 40 ڈاکو شامل ہیں۔
’ان کے جرائم کی سنگینی اور حاصل کردہ سکورز کے تحت 20 کے سر کی قیمت 50 لاکھ فی کس جبکہ 20 کے سر کی قیمت 25 لاکھ روپے فی کس مقرر کی گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر سر کی قیمت پولیس کو ہی جاتی ہے کیوں کہ پولیس ہی ان کو پکڑتی ہے یا وہ کچھ حصہ ان مخبروں کو دیتے ہیں جو پکڑنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
’جب اس طرح کی انعامی رقم دینے کا معاملہ ہوتا ہے تو آئی جی پنجاب کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ یہ رقم متعلقہ افراد کو دینے کی منظوری دیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچے کے ڈاکوؤں پر مکمل قابو کیوں نہیں پایا جا سکا؟
ڈی پی او رحیم یار خان رضوان گوندل کے مطابق ’کچے کے حوالے سے تاثر کو ٹھیک کرنا ضروری ہے، کچے کا علاقہ اس طرح نہیں کہ جیسے کہ ایک ٹاؤن ہو اور اس کے چار گھروں میں ڈاکو بیٹھے ہوں بلکہ یہ ایک وسیع و عریض علاقہ ہے جو رحیم یار خان سے شروع ہو کر دریائے سندھ کے ساتھ ہوتا ہوا اندرون سندھ کے ضلع شکار پور تک جاتا ہے۔
’اس میں پانچ اضلاع آتے ہیں جن میں رحیم یار خان، راجن پور، کشمور، گھوٹکی اور شکار پور شامل ہیں جہاں مختلف قبائل بیٹھے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ایک دو خاندان نہیں بلکہ پورے پورے قبائل ملوث ہیں جن کے کچھ خاندان کچے کے علاقے میں ہیں اور کچھ پکے میں بیٹھے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’گذشتہ دو برسوں میں پولیس نے صرف رحیم یار خان میں کچے کے علاقے کے 67 ڈاکؤں کو مارا۔
’اسی طرح راجن پور میں بھی ڈاکو مارے گئے ہوں گے، سندھ میں بھی مارے گئے ہوں گے اور اگر ہم اس میں 2014 سے لے کر اب تک کے اعدادوشمار دیکھیں تو تقریباً 400 ڈاکوؤں کا قلع قمع کیا جا چکا ہے لیکن مسئلہ اب بھی وہیں ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ ’کچے کا علاقہ اس وقت تک صاف نہیں ہو سکتا جب تک اس علاقے کو پکے میں تبدیل نہیں کیاجاتا۔
’جو ڈاکو 10 سال پہلے مرا اور اس کا بیٹا بڑا ہو کر ڈاکو بن چکا ہے اور سلسلہ جوں کا توں چل رہا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ کچھ علاقوں میں پولیس آپریشن دس پندرہ دن میں نہیں ہو سکتا۔