امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا کو دی جانے والی امریکی امداد بند کر دی ہے اور نئی امداد جاری کرنے سے بھی روک دیا ہے۔
یہ امداد 172 ممالک کو دی جاتی ہے۔ اس پابندی سے دنیا کے کئی ممالک متاثر ہوں گے، خصوصاً ترقی پذیر ممالک پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے۔
پاکستان بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ امریکی امداد پر پابندی سے پاکستانی معیشت کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے، یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کے لیے امریکی امداد تو اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اگر پچھلے 20 سال کا ڈیٹا دیکھیں تو امریکہ نے پاکستان کو تقریباً 32 ارب ڈالر براہ راست امداد دی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بتدریج کمی ہو رہی ہے۔
’2023 میں امریکہ نے پاکستان کو 170 ملین ڈالر امداد دی، جو تقریباً 49 ارب روپے بنتی ہے۔ 2024 میں امداد کم ہو کر 116 ملین ڈالر رہ گئی، جو کہ تقریباً 32 ارب روپے بنتی ہے۔
’پاکستان کا سالانہ بجٹ تقریباً 68 ارب ڈالر (18 کھرب روپے) ہے۔ اس حساب سے امریکی امداد صرف 0.17 فیصد بنتی ہے، جو کہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ اگر یہ امداد بند ہو جائے تو پاکستانی معیشت پر براہ راست خاص فرق نہیں پڑتا، لیکن اس امداد کے بند ہونے سے امریکہ کو کافی فرق پڑ سکتا ہے، کیونکہ امریکہ پاکستان کو امداد شرائط کے ساتھ دیتا ہے۔ افغانستان اور ایران کے حوالے سے پاکستان کا متبادل ملنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کا جھکاؤ چین کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ چین کی طرف جھکاؤ بڑھنے سے پاکستان امریکی امداد سے کئی گنا زیادہ امداد چین سے لے سکتا ہے۔ چین دنیا میں امداد دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاکستان ٹیکنالوجی اور فنڈز کے لیے امریکہ کے بجائے چین پر انحصار کرتا ہے۔
’پاکستان اے آئی کی بھی مدد امریکہ کے بجائے چین سے لیتا ہے۔ چین کے ہوتے ہوئے پاکستان کو امریکی امداد کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان امریکہ سے ایف-16 کے سپیئر پارٹس لینے میں دلچسپی رکھتا ہے اور وہ ڈیل امداد کا حصہ نہیں ہے۔ پہلے بھی ایک بزنس ٹرانزیکشن کے ذریعے پرزے حاصل کیے جاتے تھے۔‘
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکی امداد ملتی تھی۔ جب سے امریکہ افغانستان سے گیا ہے، امداد بھی ساتھ لے گیا ہے۔
’امریکہ کی پاکستان کو امداد کی مالی حیثیت تو بہت کم ہے، لیکن اس کی سٹریٹیجک ویلیو بہت زیادہ ہے۔ امریکہ کی کسی بھی ملک کو امداد بہتر سفارتی تعلقات کو ظاہر کرتی ہے۔ فی الحال یہ پابندی 90 روز کے لیے ہے۔ اگر 90 روز بعد بھی پاکستان کی امداد بند رہتی ہے تو پاکستان کو دیگر محاذ پر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
’پاکستان اس وقت سات ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام میں ہے۔ مارچ میں آئی ایم ایف وفد پاکستان آ رہا ہے۔ ایک مہینے میں بہت کچھ سامنے آ جائے گا۔ میں حالات کو مزید کشیدہ ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ وزیرِاعظم پاکستان اور وزیر خزانہ پہلے ہی اقرار کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری میں امریکی سابق صدر جو بائیڈن نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اب ٹرمپ کی حکومت ہے، حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔‘
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’امریکہ کی پاکستان کو امداد خوراک، تعلیم، صحت، جینڈر انکلوژن اور جمہوریت کے فروغ جیسے شعبوں میں زیادہ ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ امداد خوراک، ایمرجنسی فوڈ اسسٹنس پروگرام کے تحت دی جاتی تھی، جو کہ تقریباً 21.5 ملین ڈالر سے زائد ہے۔
’یو ایس پے اینڈ بینیفٹس کے لیے آٹھ ملین ڈالر، توانائی کے لیے سات ملین ڈالر، تعلیم کے شعبے کو تقریباً آٹھ ملین ڈالر اور پولیو کے خاتمے کے لیے تقریباً سات ملین ڈالر امداد دی جا رہی تھی۔ ٹرمپ جینڈر انکلوژن اور جمہوریت کو نہیں مانتے، اس لیے جائزے کے بعد یہ پروگرام بھی مکمل بند کر سکتے ہیں، جس سے امداد میں کمی ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ٹرمپ ایک ٹرانزیکشنل وزیرِاعظم ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر میں آپ کو کچھ دے رہا ہوں تو آپ اس کے بدلے مجھے کیا دے رہے ہیں۔ وہ منصوبوں اور سماجی فلاح کے لیے فنڈز دینے کے حق میں نہیں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ نے یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت ملنے والی امداد بند کی ہے۔ یہ صرف ایک ادارہ ہے، باقی امداد مل رہی ہے۔ لیکن یہ امداد بھی بہت مؤثر نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا بہت بڑا حصہ یو ایس ایڈ کے کنسلٹنٹ لے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 60 سے 65 فیصد رقم واپس امریکہ چلی جاتی ہے۔ اگر لوکل کنسلٹنٹس کو یہ ہزار ڈالر دیتے ہیں تو امریکی کنسلٹنٹ کو دو ہزار ڈالر دیتے ہیں۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’امریکہ نے اقوامِ متحدہ کو دی جانے والی امداد پر بھی پابندی لگائی ہے۔ اقوامِ متحدہ پاکستان کو جو امداد دیتا ہے، وہ متاثر ہو سکتی ہے، لیکن وہ بھی بہت معمولی نوعیت کی ہے۔ امریکی امداد بند ہونے کا زیادہ اثر افغانستان جیسے ممالک پر پڑ سکتا ہے۔
’امریکہ ایک ہفتے میں چالیس ملین ڈالر افغانستان کو دیتا ہے، اس میں تعطل اہم ہو سکتا ہے۔ افغانستان کے حالات خراب ہونے سے پاکستان پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ افغانستان اپنی کرنسی کی ضرورت پاکستان سے پوری کرتا ہے، جس کے باعث پاکستان میں ڈالر ریٹ پر فرق پڑ سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’امریکی امداد 90 روز کے لیے بند ہوئی ہے۔ 90 روز بعد امداد بحال بھی ہوئی تو اس میں مزید کمی آ سکتی ہے۔ امداد بند ہونے سے ملکی معیشت پر تو فرق نہیں پڑے گا، لیکن پروگرامز اور ڈیپارٹمنٹس ضرور متاثر ہو سکتے ہیں۔ اچانک پروگرامز بند ہونے سے بہت سے خاندانوں کا ذریعہ معاش ختم ہو سکتا ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔