ایران: ’1700 کلومیٹر‘ تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل ’اعتماد‘ کی رونمائی

ایرانی وزارت دفاع کا تیار کردہ ’تازہ ترین بیلسٹک میزائل‘ کی تہران میں رونمائی پر ایران کے صدر مسعود پزشکیان کا کہنا تھا کہ ’دفاعی صلاحیتوں اور خلائی ٹیکنالوجیز کی ترقی کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی ملک ایرانی سرزمین پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرے۔‘

ایران نے اتوار کو نیا بیلسٹک میزائل متعارف کرا دیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ’1700 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق میزائل کی رونمائی تہران میں ہونے والی ایک تقریب میں ہوئی جس میں ایران کے صدر مسعود پزشکیان بھی شریک تھے۔

سرکاری ٹیلی ویژن نے میزائل کی تصاویر نشر کیں جسے فارسی زبان میں ’اعتماد‘ کا نام دیا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ میزائل کا زیادہ سے زیادہ 17 سو کلو میٹر (1056 میل)  کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے نیز یہ ایرانی وزارت دفاع کا تیار کردہ ’تازہ ترین بیلسٹک میزائل‘ ہے۔

صدر مسعود پزشکیان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’دفاعی صلاحیتوں اور خلائی ٹیکنالوجیز کی ترقی کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی ملک ایرانی سرزمین پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرے۔‘

یہ تقریب ایران کے قومی ایرو سپیس ڈے کے موقع پر منعقد کی گئی اور اس کا اہتمام 10 فروری 1979 کو اسلامی جمہوریہ کے قیام کی 46ویں سالگرہ سے چند دن قبل کیا گیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے کے بعد تہران نے کئی بار اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جس میں بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں اور زیر زمین فوجی اڈوں کی رونمائی شامل ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی اپنائی۔

اسی دوران تہران نے اپنے جوہری پروگرام پر دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی آمادگی کا اشارہ بھی دیا جو کئی دہائیوں سے مغربی ممالک کے ساتھ کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے۔

ایران جو کبھی اپنا زیادہ تر فوجی ساز و سامان اپنے ماضی کے اتحادی امریکہ سے حاصل کرتا تھا، 1979 کے بعد سے واشنگٹن کی جانب سے تعلقات منقطع کیے جانے کے بعد ہتھیار خود تیار کرنے پر مجبور ہوگیا۔

ایران، جو 1980 سے 1988 تک عراق کے ساتھ تباہ کن جنگ کے دوران اسلحے کی پابندی کا سامنا کر چکا ہے، اب اندرون ملک تیار کردہ ہتھیاروں کے  وسیع ذخیرے کا مالک ہے، جس میں میزائل، فضائی دفاعی نظام، اور ڈرونز شامل ہیں۔

سرکاری ٹی وی نے ہفتے کو رپورٹ کیا کہ ایران نے ایک اینٹی وارشپ کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا  جس کی رینج ایک ہزار کلومیٹر (600 میل) ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کی بحریہ کے سربراہ جنرل علی رضا تنگسیری نے کہا کہ ’یہ (میزائل) غدر-380 میل ٹائپ ایل  ہے، جس کی رینج 1000 کلومیٹر سے زیادہ ہے اور یہ رکاوٹوں سے بچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

یہ بیان جنوبی ساحل پر زیر زمین میزائل تنصیب کی فوٹیج کے ساتھ نشر کیا گیا۔

رپورٹ میں نہ تو اس وار ہیڈ کی تفصیلات دی گئیں جو میزائل میں نصب تھا اور نہ ہی تجربے کے وقت کا ذکر کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنرل علی رضا تنگسیری نے کہا کہ یہ تنصیب ’پاسداران انقلاب کے میزائل سسٹمز کا محض ایک حصہ ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ میزائل ’دشمن کے جنگی جہازوں کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ ایک ’جدید اور پیچیدہ میزائل‘ ہے تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق میزائل کو زیر زمین تنصیب سے لانچ کیا جا سکتا ہے۔ اسے ایران کے وسطی علاقے سے بحیرہ عمان کی جانب داغا گیا۔

مزید کہا گیا کہ میزائل کو صرف ایک اہلکار پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں تیار کرکے لانچ کر سکتا ہے۔

ایران 2011 سے وقتاً فوقتاً زیرِ زمین میزائل تنصیبات کے افتتاح اور میزائل تجربات کا اعلان کرتا رہا ہے۔ اس نے ملک بھر میں اور جنوبی ساحل پر آبنائے ہرمز کے قریب زیرِ زمین تنصیبات ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 2000 کلومیٹر (1200 میل) تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں۔

عراق کے ساتھ 1980 کی دہائی کی خونریز آٹھ سالہ جنگ کے بعد، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے شہروں پر میزائل داغے تو ایران نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو دفاعی حکمت عملی  کے طور پر ترقی دی۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ اقوام متحدہ کی اسلحہ پابندی ایران کو جدید ترین ہتھیاروں کے نظام خریدنے سے روکتی ہے۔

زیر زمین سرنگیں ان ہتھیاروں، بشمول مائع ایندھن والے میزائلوں کی حفاظت میں مدد دیتی ہیں، کیوں کہ ایسے میزائلوں میں محض مختصر وقت میں ایندھن بھرا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا